پلاسٹک کی آلودگی دنیا بھر کے لئے ایک خطرہ

ایک طرف گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے دھوئیں سے شہروں میں رہنے والے عوام تنگ ہیں تو دوسری طرف پلاسٹک سے پھیلنے والی آلودگی نے آبی حیات کی زندگی تنگ کی ہوئی ہے

مہمیز علی بدھ 20 مارچ 2019

plastic ki aloodgi duniya bhar ke liye ek khatra
گلوبل وارمنگ میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور یہ پوری دنیا کہ لئے ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ دنیا کے دس ایسے شہر جہاں سب سے زیادہ آلودگی پائی جاتی ہے میں فیصل آباد تیسرے جبکہ لاہور دسویں نمبر پر ہے۔ ایک طرف گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے دھوئیں سے شہروں میں رہنے والے عوام تنگ ہیں تو دوسری طرف پلاسٹک سے پھیلنے والی آلودگی نے آبی حیات کی زندگی تنگ کی ہوئی ہے۔


 ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اگلی صدی کے وسط تک کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کی سطح میں اتنا اضافہ ہو جائے گا جتنا کہ پچھلے 56 ملین سالوں میں بھی نہیں دیکھا گیا۔ آلودگی میں اضافے کی ایک بڑی وجہ کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس ہوتی ہے جس کی وجہ سے زمین کی سطح رات کے وقت ٹھنڈی نہیں ہو پاتی اور ساتھ ہی اس سے سمندر کے پانی میں گرمی کی شدت میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔

(جاری ہے)

سمندروں کی وجہ سے آج تک ہم دنیا میں پھیلتی آلودگی سے کچھ حد تک بچے ہوئے ہیں کیونکہ صدیوں سے سمندروں نے وسیع پیمانے پر ماحول میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کیا ہے اور اس طرح زمین کے ماحول کو خوشگوار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک گلوبل وارمنگ کے مکمل اثرات ظاہر نہیں ہوئے ہیں۔ لیکن اب پلاسٹک کی وجہ سے سمندر بھی آلودگی سے محفوظ نہیں۔

 ایک تحقیق کے مطابق سمندر میں ہر سال 80 لاکھ ٹن سے زائد پلاسٹک شامل ہو رہا ہے اور اگر 2050 سے پہلے اس مسئلہ پر قابو نہ پایا گیا توسمندر میں مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک کی تعداد پائی جائے گی۔لوگ اکثر اوقات شاپر بیگ اور دیگر ڈسپوز ایبل مصنوعات، جیسے سوڈا کین یا پانی کی بوتلیں سڑک پر پھینک دیتے ہیں جس سے دنیا بھر میں پلاسٹک کی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس حوالے سے بہت سی رپورٹس بھی سامنے آچکی ہیں. اکثر سمندر کے ارد گرد بسنے والے جانور غلطی سے پلاسٹک کے گلاس وغیرہ نگل لیتے ہیں اور یہی عمل ان کی موت کا باعث بنتا ہے۔

اس وجہ سے دنیا بھر میں جانوروں کی نسلیں ختم ہو رہی ہیں۔ چند روز قبل خیبرپختونخواہ حکومت نے صوبہ بھر میں پلاسٹک بیگز کے استعمال پر پابندی عائدکی ہے جسے حکومت کی جانب سے ایک مثبت قدم کہا جا سکتا ہے۔ لیکن اسکا کوئی متبادل بھی پیش کرنا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر یوکرائن میں ایسے شاپر بیگز متعارف کروائے گئے ہیں جنہیں آپ استعمال کے بعد کھا بھی سکتے پیں۔

دوسری طرف اگر پودوں اور درختوں کی بات کی جائے تو یہ پوری دنیا کہ لیئے بیحد ضروری ہوتے ہیں اور ان سے ہمیں مختلف قسم کے پھل اور سبزیاں ملتے ہیں، لیکن اب ان کو بھی پلاسٹک کی آلودگی کی وجہ سے خطرہ ہے کیونکہ پودوں اور درختوں کے لئے ضروری اجزاء پلاسٹک کی آلودگی کی وجہ سے تباہ ہو رہے ہیں۔پلاسٹک ایک ناقابل یقین حد تک مفید چیز ہے، لیکن یہ زہریلے کیمیکل سے پیداہوتا ہے جو کہ بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔

اس سے بچنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ جب بھی کوئی کھانے پینے کی چیز خریدیں تو شاپر بیگ کی بجائے کاغذ میں چیز لیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ برتن ساتھ لے جائیں اور اس میں چیز لے آئیں۔ اس کے علاوہ، گھر میں پلاسٹک کے تھیلے لانے اور پیکنگ کی بہت زیادہ اشیاء سے بچنے کی کوشش کریں۔ اس طرح آپ پلاسٹک کی آلودگی کوکم کرنے میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔

حال ہی میں کینیا کے دارالحکومت نروبی میں اقوام متحدہ کی ماحولیاتی اسمبلی میں 150 سے زائد ممالک نے اگلے دس سالوں کے اندر پلاسٹک کے استعمال میں کمی لانے پر زور دیا ہے۔ اس سے قبل یہ تجویز دی گئی تھی کہ2025 تک اس مسئلہ پر قابو پا لیا جائیگا لیکن امریکا سمیت کچھ دیگر ممالک نے اس تجویز سے مخالفت کی اور وجہ یہ پیش کی کہ اس مسئلہ پر اتنی جلدی قابو پانا آسان نہیں۔

دنیا ایک طرف سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کر رہی ہے تو دوسری طرف اپنی تباہی کا سامان بھی خود ہی پیدا کر رہی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ترقی کے نام پر ہم خود ہی اپنے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پلاسٹک کی آلودگی اور گلوبل وارمنگ میں کمی لانے کے لئے ہر شخص اپناکردار ادا کرے۔ مثال کے طور پر نئی مصنوعات خریدنا کم کرنے، بوتلیں،پلاسٹک کنٹینرز اور اس طرح کی دیگر اشیاء کو استعمال کے بعد پھینکنے کی بجائے دوبارہ استعمال میں لانے، انرجی سیور لائٹس کے استعمال اور غیرضروری بجلی کے استعمال میں کمی لانے، اور پودے لگانے سمیت دیگر اس طرح کے اقدام اٹھانے سے آلودگی کے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

plastic ki aloodgi duniya bhar ke liye ek khatra is a khaas article, and listed in the articles section of the site. It was published on 20 March 2019 and is famous in khaas category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.