
” سالانہ ترقیاتی پروگرام“ کیا ہوا
200ارب بغیر خرچ کئے واپس ہونے کا خدشہ
جمعرات 12 مئی 2016

ہمارا المیہ ہے کہ ہمارے یہاں مختلف منصوبے تو بنالیے جاتے ہیں لیکن اس جانب کوئی توجہ ہی نہیں دیتا کہ مقررہ مدت میں ان منصوبوں پر عمل درآمد کیسے کرانا ہے۔ اسی طرح اکثر ترقیاتی منصوبے فیتہ کاٹنے اور واہ واہ کروانے کے بعد ادھورے چھوڑ دئیے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ فیتہ کٹ جانے کے بعد عملی کام ہونا ہوتا ہے جس کا فائدہ عوام کو تو ہوتا ہے لیکن سرکار کو نہیں ہوتا۔ سرکار کا فائدہ افتتاح کے وقت ملنے والی ریٹنگ تک محدود ہوتا ہے۔ اس کی تازہ مثال حال ہی میں وزیراعظم کی جانب ایک ہی منصوبے کا تیسری بار افتتاح کرنا بھی ہے۔ اسی طرح ناقص منصوبہ بندی، سفارشی عملہ اور غیر تربیت یافتہ افراد بھی ان ترقیاتی منصوبوں کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنتے ہیں۔
(جاری ہے)
ہر سال بجٹ بناتے وقت ترقیاتی منصوبوں کی مد میں رقم مختص کی جاتی ہے تاکہ دیگر ملکی معاملات کے ساتھ ساتھ عوامی افلاح کے منصوبوں پر بھی عمل ہو۔
بدقسمتی سے ہمارے یہاں عوامی نمائندے یہی رونا روتے رہتے ہیں کہ انہیں ترقیاتی فنڈز نہیں مل پاتے۔ دوسری جانب یہ بھی سچ ہے کہ اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈز سرے سے استعمال ہی نہیں کئے جاتے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس سال بھی سالانہ ترقیاتی پروگرام کے 200ارب بغیر خرچ کیے واپس ہوجائیں گے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وفاتی سالانہ ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے تحت منصوبوں پر رمل درآمد میں حائل ، انتظامی، قانونی اور امن وامان کے مسائل کے سبب 700 ارب روپے خرچ کرنے کا ہدف پورا نہیں ہوسکے گا۔ اس لیے ترقیاتی فنڈز کی بڑی مالیت واپس قومی خزانے میں جمع ہونے کا خدشہ ہے۔ یادرہے کہ رواں مالی سال کے پہلے 9ماہ میں ملک بھر میں جاری ترقیاتی منصوبوں کے لیے فنڈز کا اجر 400ارب روپے سے تجاوز کرگیا۔ اس میں سے 329.926 ارب روپے استعمال ہوسکے ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ 15مئی تک جتنا بجٹ خرچ ہوسکا وہ تو استعمال کے زمرے میں آئے گا لیکن باقی بچ جانے والا فنڈ استعمال نہ ہوسکے گا۔ رپورٹ میں امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ لگ بھگ 200ارب روپے کے فنڈز سرے سے استعمال ہی نہیں ہوسکیں گے۔ یاد رہے اب تک وزیراعظم یوتھ پروگرام کے تحت 13ارب ایم جی ڈیز کے پروگرام کے تحت ملک بھر میں چھوٹی سکیموں پر 20ارب روپے، ایرا کو 8.55ارب روپے، خصوصی پروگراموں کے تحت سفیران وفاٹا کو 13.431ارب روپے، گلگت بلتستان میں 4.919ارب روپے جبکہ آزاد کشمیر میں 9.406 ارب روپے استعمال ہوئے ہیں۔ ایک طرف تو سرکار کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھا دیاجائے گا۔ دوسری جانب سرکار منظور شدہ بجٹ بھی مکمل طور پر ترقیاتی کاموں پر خرچ نہیں کرتی۔ سوال یہ ہے کہ کیا سرکار کو علم نہیں کہ دفتری فائلوں میں بنائے گئے کتنے منصوبے عملی طور پر کھل ہی نہیں ہو پاتے؟ سرکار عوام کو ایک حد سے زیادہ ریلیف کیوں نہیں دینا چاہتی؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا ہرسال ترقیاتی بجٹ کے لیے مختص رقم کا بچ جانا حکومت کی انتظامی نا اہلی نہیں ہے؟ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
-
”اومیکرون“ خوف کے سائے پھر منڈلانے لگے
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
-
سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی سے نئی تاریخ رقم
مزید عنوان
Salana Taraqiati Program Kia Huwa is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 12 May 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.