سرکاری گاڑیاں کہاں جاتی ہیں ؟

90 سے زائد گاڑیوں کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا ؟۔۔۔۔ سرکاری ریکارڈ میں گھپلے معمول کی بات ہے۔ اکثر سرکاری مال خانے کا ریکارڈ ادھورا ہی ملتا ہے ۔ اسی طرح سرکاری ملازمین میں وفاتر کی اشیاء کا نجی استعمال بھی معمول کی بات سمجھی جاتی ہے۔

منگل 8 مارچ 2016

Sarkari Gariyan Kahan Jati Hain
سرکاری ریکارڈ میں گھپلے معمول کی بات ہے۔ اکثر سرکاری مال خانے کا ریکارڈ ادھورا ہی ملتا ہے ۔ اسی طرح سرکاری ملازمین میں وفاتر کی اشیاء کا نجی استعمال بھی معمول کی بات سمجھی جاتی ہے۔ ہر محلے کے چند افسران کو تو سرکاری گاڑیاں مل جاتی ہیں لیکن نچلے عملے میں بھی ایسے افراد موجود ہوتے ہیں جو افسران کی ناک کا بال سمجھے جاتے ہیں۔ ان ملازمین کو بعض مفادات کے لیے افسران خوش رکھتے ہیں تاکہ ان کے گھپلے منظر عام پر نہ آسکیں اور مشکوک ریکارڈ فائلوں میں ہی دبا رہے۔

اسی طرح بعض معاملات میں جونیئر افسر کے دستخط بھی ضروری ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ افسر کم درجے کے ہی سہی لیکن خاصے اہم سمجھے جاتے ہیں۔ دوسرے جانب انہی سرکاری اداروں میں نچلے درجے کے ایسے افسرواہلکار بھی موجود ہیں جو خود اہم نہ بھی ہوں لیکن افسران کی خوشامد اور چاپلوسی کی وجہ سے خاصی اہمیت حاصل کر لیتے ہیں۔

(جاری ہے)

ایسے افراد کو اصولی اور محکمانہ قوانین کے تحت گاڑیاں اور مراعات نہیں دی جا سکتیں لیکن اس کے باوجود انہیں مراعات حاصل ہو جاتی ہیں۔

کسی اور استعمال میں ظاہر کردہ گاڑیاں انہیں سونپ دی جاتی ہیں عام طور پر یہ افراد ایسی گاڑی کی سبز نمبر پلیٹ اتار کر عام نمبر پلیٹ لگا دیتے ہیں اور گھریلو استعمال تک محدود کر دیتے ہیں تاکہ نظروں میں نہ آئیں۔ ان کی گاڑی میں پٹرول بھی کسی اور افسر کے کوٹہ سے ڈلوایا جاتا ہے۔ سرکاری محکموں کی اکثر لاپتہ گاڑیاں عموماََ ایسے اہلکاروں کے ہی زیر استعمال ہوتی ہیں۔

کئی سال کی سروس کے بعد اگر کسی ایسے ملازم کا تبادلہ ہو جائے تو گاڑی بھی عموماََ لاپتہ ہو جاتی ہے کیونکہ کسی کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ گاڑی کس کے استعمال میں تھی۔ اگر کبھی ریکارڈ کاجائزہ لیا جائے تو یہ گاڑی کسی اورکام میں مصروف نظر آتی ہے لیکن وہاں بھی اس کی کوئی خبر نہیں ملتی۔ اس طریقہ واردات کے تحت سرکار کی کئی گاڑیاں گم کی جا چکی ہیں۔

دوسری جانب کئی سرکاری گاڑیاں چوری بھی ہو جاتی ہیں عام طور پر ان گاڑیوں کی بھی کوئی خبرنہیں ملتی ۔ ایک رپورٹ کے مطابق انویسٹی گیشن ، سی آئی اے اور اینٹی کارلفٹنگ سکواڈ پر مشتمل خصوصی ٹیمیں وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ سمیت مختلف محکموں کے زیر استعمال 90 سے زائد چوری ہونے والی سرکاری گاڑیوں کا تاحال سراغ نہیں لگا سکیں اور نہ ہی اس سلسلے میں درج ہونے والے مقدمات کی تفتیش میں اب تک کوئی پیش رفت سامنے آسکی ہے۔

رپورٹ کے مطابق پنجاب کے مختلف اضلاع سے وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ ، سوشل ویلفیئر، محکمہ ہاوسنگ اینڈ ڈویلپمنٹ ، پبلک ہیلتھ انجینئر نگ ، محکمہ ماحولیات ، لیبر اینڈ ہیومن ریسورسز، محکمہ صنعت وتجارت، دائریکٹر جنرل پروٹوکول، محکمہ زراعت اور سپیشل ایجوکیشن سمیت دیگر اداروں کی 90 سے زائد گاڑیاں چوری ہو چکی ہیں۔ یاد رہے کہ ان گاڑیوں کی برآمدگی کے لیے پنجاب پولیس کے شعبہ انویسٹی گیشن، سی آئی اے اور اینٹی کارلفٹنگ سکواڈ پر مشتمل خصوصی ٹیمیں تشکیل دی گئیں اور بلند وبالا دعوے بھی کئے گئے تھے۔

سوال یہ ہے کہ اگر سرکار اپنی گاڑیاں برآمد نہیں کر سکتی تو پھر عام شہریوں کی چوری ہونیوالی گاڑیوں کا کیا حال ہوگا۔؟ سوال یہ بھی ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ افسران کو نئی گاڑیاں مل جانے کی وجہ سے محکمے بھی ان کی برآمدگی میں دلچسپی نہیں لیتے ؟ اہم سوال تو یہ ہے کہ اگر کہیں ایسی کوئی گاڑی کسی افسر کے بچے یا بیگم کے ذاتی استعمال میں پکڑی گئی تو کیا ہوگا ؟ اسی طرح سرکاری گاڑی دہشت گردوں کے استعمال میں ہوئی اور انہیں ناکوں میں سہولت ملتی رہی تو کون جوابدہ ہوگا۔؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Sarkari Gariyan Kahan Jati Hain is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 08 March 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.