ترک عوام نے امریکہ اور اسرائیل کا منصوبہ خاک میں ملادیا

ترکی میں ناکام فوجی بغاوت۔۔۔ فتح اللہ گولن عالمی صھیونیت کا مھرہ بن کر ترکی میں فساد پید ا کرتا ہے

جمعہ 28 جولائی 2017

Turk Awam Ne Amrica Aur Israel Ka Mansooba Khak Main Mila Dia
محمد انیس الرحمن:
ترکی میں ناکام فوجی انقلاب کے بعد بہت سے اہم ملکوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی جن میں امریکہ اور اسرائیل سر فہرست ہیں۔ کیونکہ رجب طیب اردگان کی حکومت کی وجہ سے اب تک خطے میں اسرائیل اور دیگر اسرائیل اور امریکہ نواز ملکوں کو سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس انقلاب کے پیچھے کون ہوسکتا ہے؟مقاصد کیا تھے؟ اس جانب بعد میں آتے ہیں لیکن اس حوالے سے سب سے پہلے اسرائیلی حکام کا کیا ردعمل ملاخطہ کرتے ہیں۔

اسرائیل کے مشہور اخبار”یدعوت احرونوت“ میں ایک بیان جاری کیا جس کے مطابق ”ترکی میں انقلابیوں نے سب سے بڑی غلطی یہ کی تھی کہ انہیں اپنی کاروائی کا آغاز ترک وزیراعظم اردگان کی گرفتاری سے کرنا چاہیے تھا، اگر انقلابی یہ غلطی نہ کرتے تو آج نتائج کچھ اور ہی ہوتے۔

(جاری ہے)

ترک وزیراعظم کر گرفتارنہ کرنے انہیں قوم سے خطاب کا موقع میسر آگیا اور ان کی اپیل پرلاکھوں ترک عوام سڑکوں پر نکل آئے۔

جیسے ہی انقلابی فوجی دستوں نے غضب ناک ترک عوام کو سڑکوں پر دیکھا اسی لمحے انقلاب ناکام ہوگیا یوں انقلاب کی منصوبہ بندی کرنے والی بیس اعلیٰ فوجی افسران تصادم میں مارے گئے جبکہ باقی تقریبا تیس شدید زخمی ہوگئے، جن پر اب بغاوت کے مقدمے چلیں گے“۔ اسرائیلی امور کے ایک اور ماہر صالح النعامی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ”ترکی میں جمہوریت نے انقلاب پر فتح پائی ہے اور اب اردگان اگلے بیس برس تک ترکی پر حکمرانی کریں گے“۔

عرب صحافتی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ ترکی میں انقلاب برپا کرنے والے ایک ماسٹر مائنڈ اور ترک فضائیہ کے سابق سربراہ جنرل اکن اوز توک کو اسرائیل کے بہت قریب تصور کیا جاتا تھا وہ 1996 سے 1998 ء تک تل ابیب میں ترک سفارتخانے کا ملٹری اتاشی بھی رہا، اسی دوران اس کے اسرائیل عسکری اسٹیبلشمنٹ اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے ساتھ قریبی روابط رہے۔

ماضی میں بحیرہ روم میں ہونے والی امریکہ ،اسرائیل اور ترکی کی مشترکہ عسکری مشقوں کے دوران بھی اس ترک جنرل اکن اوز توک کا اسرائیلی عسکری حکام سے قریبی رابطہ رہا ہے، گذشتہ برس اگست میں جنرل اکن کو فوج سے فارغ کردیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود وہ قومی سلامتی کونسل کا اعلیٰ رکن رہا۔ اس سارے معاملے میں سب سے زیادہ نام امریکہ میں مقیم ترکی کی ”حزمت“ نامی تحریک کے رہنما فتح اللہ گولن کا آرہا ہے جسے ترک حکومت نے اس سازش کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا ہے ۔

یہ بات بہت پہلے آشکار ہوچکی ہے کہ فتح اللہ گولن امریکی ریاست پنسلوانیا میں امریکی سی آئی اے کے ”زیر کفالت“ زندگی گزار رہا ہے اور اسے امریکہ اور اسرائیل ترک حکومت کی اسلام پسند پالیسیوں کے خلاف مختلف مواقع پر استعمال کرتے رہتے ہیں۔ اس کا اندازہ ایک بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ فتح اللہ گولن نے ترک حکومت کی شام میں مداخلت کی پالیسیوں کی کھل کر مخالفت کی۔

اس کے علاوہ جس وقت غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کی امداد کے لئے ترک نے اپنے امدادی بحری جہاز فلوٹیا کو وہاں روانہ کیا تو گولن نے ایک مرتبہ پھر اردگان کی پالیسی پر سخت تنقید کی اور بیان دیا کہ ترکی کو اسرائیل کی اجازت کے بغیر ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے تھا۔ امریکہ میں مقیم گولن کی شکل میں موجود فتنہ اپنے آپ کو سیاسی عزائم سے پاک قرار دیتا رہا ہے اور اپنی تحریک کو ایک مذہبی تحریک قرار دیتا ہے لیکن درحقیقت اس نے قدم قدم پر طیب رجب اردگان کی ایسی پالیسیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے جو امریکہ اور اسرائیل کے مفاد میں نہیں جاتیں۔

اس حوالے سے 4 جنوری 2014 ء کو اسرائیل کے بنیاد پرست اخبار ”میکورریشون“ نے اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں فتح اللہ گولن اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کا پول کھولا تھا۔ رپورٹ کے مطابق: ”فتح اللہ گولن کی تحریک حزمت کے تل ابیب اور اسرائیلی وزارت خارجہ سے قریبی تعلقات ہیں۔ اس سلسلے میں اس تحریک سے وابستہ اہم افراد اسرائیل کا دورہ کرتے رہتے ہیں خاص طور پر تل ابیب کے تعلیمی اداروں میں ایسے افراد بھی زیر تعلیم ہیں جن کا تعلق فتح اللہ گولن کے تعلیمی اداروں سے ہے“۔

اس اسرائیلی اخبار نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ترکی کے مشہور انگریزی جریدے ”Review Turkish “ کا مدیر کریم باتیش بھی اسرائیلی تعلیمی ادارے کا فارغ التحصیل ہے۔ یہ جریدہ ترکی میں معاشرتی اور سماجی معاملات میں ایک تحقیقی جریدہ شمار کیا جاتا ہے اس پر اسرائیل افکارکے کیا اثرات ہوں گے اس کا اندازہ اس کے مدیر موصوف کے تعلیمی پس منظر سے ہی لگایا جاسکتا ہے۔

ماضی قریب میں جس وقت فتح اللہ گولن نے اسرائیلی حکومت سے دریائے اردن کے مقبوضہ مغربی کنارے میں اپنی جماعت کے تین اسکول کھولنے کی اجازت طلب کی تھی تو اس وقت اسے اس کی اجازت نہیں دی گئی تھی لیکن بعد میں جب امریکہ میں اس کی جماعت کے اسکولوں کی ”کارکردگی“ کا قریبی مشاہدہ کیا تو اسرائیلی حکومت نے اس جماعت کو مغربی کنارے کے علاقے میں اسکول کھولنے کی اجادت دے دی۔

انقرہ میں تعینات سابق اسرائیلی سفیر اور اسرائیل وزارت خارجہ الون لیفن نے اہنے ایک بیان گولن کی جانب سے طیب اردگان کی حکومت پر سخت تنقید کے حوالے سے کہا تھا کہ ترکی میں اردگان کی جماعت انصاف پارٹی کو اقتدار سے بے دخل کرنا اسرائیل حاخامات سے قریبی روابط بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں‘یہی وہ تعلقات ہیں جو اردگان کی حکومت پر تنقید کا سبب بنتے ہیں۔

۔۔ یہ تمام مختصر تفصیلات ترکی کی داخلی صورتحال سے تعلق رکھتی ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ سمیت اس خطے میں جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اس میں ترکی کیسا کردار ادا کررہا تھا جس کی وجہ سے عالمی صہیونی قوتوں نے ترکی کی حکمران جماعت کے خلاف فوج کو استعمال کرنے کی کوشش کی۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ماضی قریب میں شام کی صورتحال کی وجہ سے روس اور ترکی کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہوچکے تھے اس میں اضافہ اس وقت ہوا جب ترکی کی جانب سے ایک روسی لڑاکا طیارہ مار گرایا گیا جس پر روسی صدر پوٹن نے ترکی کہ ساتھ تمام سفارتی اور تجارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اس بات کو اس تناظر میں دیکھا جائے کہ ہم پہلے بھی مختلف مواقع پر یہ کہتے ہیں کہ شام میں جاری جنگ درحقیقت امریکہ اور روس کی ”پراکسی جنگ“ ہے جس کا اصل ہدف یوکرین اور کرائمیا کا انتہائی اہم علاقہ ہے جو اب روس کے پاس آچکا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کے نزدیک روس کا یہ اقدام اسرائیل کی سلامتی کے لئے انتہائی خطرناک ہے کیونکہ بحیرہٴ اسود میں کرائمیا واحد جنگی بندر گاہ تھی جس کا رخ ترکی کی بحیرہ باسفورس کی جانب تھا جہا ں سے بحیرہ روم میں داخلہ آسانی سے ممکن ہے جہاں سے اسرائیل کو نشانے پر لینا بہت آسان ہوجاتا ہے۔

1955ء میں سودیت یونین کی جانب سے انتہائی پراسرار انداز میں یہ اہم ترین اسٹریٹجک بندر گاہ مغربی یوکرین کو ”تحفتا“ دے دی گئی تھی حالانکی یہ روسیوں کا مزاج نہیں ہے۔ لیکن سودیت یونین کی تحلیل کے بعد روس کی موجودہ قیادت نے نہ صرف یوکرین کو اپنا اتوٹ انگ قراردیا بلکہ کرائمیا کو بھی اپنے تصرف میں لے لیا جس کی وجہ سے واشنگٹن اور تل ابیب میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ۔

اس کے بعد امریکہ اور اسرائیل کی پوری کوشش رہی کہ روس کو شام کے میدان میں گھیرا جائے تاکہ روس کے معاملات میں ایک مرتبہ پھر افغانستان کی تاریخ دوہرائی جاسکے لیکن عین وقت پر روس نے پھر اپنے آپ کو شام میں پوری طرح ملوث ہونے سے بچا کر اپنی کاروائیوں کا ادئرہ صرف فضائی کاروائیوں تک محدود کرلیا۔ ترکی کی جانب سے روسی طیارہ مار گرانے کے بعد امریکہ اور اسرائیل میں یہ امید پیدا ہوگئی تھی کہ اب لمبے عرصے تک ترکی اور روس کے تعلقات کشیدہ رہیں گے اور ممکن ہے کہ یہ قوتیں شام کے معاملے میں آپس میں ٹکرا بھی جائیں لیکن پھر اچانک صورتحال نے دوسرا رخ اختیار کرنا شروع کردیا اور ترکی اور روس کے تعلقات تیزی سے معمول پر آنا شروع ہوگئے غالبا دونوں ملک امریکہ اور اسرائیل کا کھیل بڑی حد تک سمجھ چکے تھے اس لئے روسی طیارہ گرانے پر اردگان نے معذرت پیش کی اور پوٹن نے اس معذرت کو فوراََ قبول کرکے تعلقات کی بحالی کا اعلان کردیا جس نے عالمی صہیونی دارلحکومتوں میں پھرکھلبلی مچادی۔

ترکی میں موجود ہ اردگان کے خلاف ناکام انقلاب کی کوشش کو سمجھنے کے لئے کہ کون سے عناصر اس کے پیچھے تھے اس خطے کی پوری صورتحال کو سمجھنا ضروری ہے۔ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں انتشار کی آگ بھڑکانے کا اصل سبب اسرائیل کی عالمی حکمرانی کے قیام یا اعلان سے پہلے حالات کو اس کے حق میں ساز گار کرنا ہے لیکن حالات ”ساز گار“ہونے کی بجائے مزید امریکہ اور اسرائیل کے ہاتھ سے نکلے جارہے ہیں‘ اس سلسلے میں ترکی کا کردار روس کے بعد خطے میں سب سے اہم قرار دیا جاتا ہے۔

دنیا بھر کی عالمی دجالی صہیونی قوتیں اسرائیل کے گرد واقع خطے میں آگ لگانے پر کیوں آمادہ ہیں اور اسرائیل اس تمام تر صورتحال میں کیوں خاموش بیٹھا ہے؟ اس کا پس منظر جاننے کے لئے ہمیں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دجالی منصوبے کے مطابق اسرائیلی عالمی سیادت کے قیام سے پہلے مشرق وسطیٰ میں ا سرائیل کی بالادستی اور خطے کی دیگر قوتوں کو اس کے سامنے سرنگوں کرنا ضروری ہے۔

یقینی بات یہ ہے کہ تیل اور گیس کے ذخائر پر اسرائیلی تسلط کو روس اور چین کسی صورت قبول نہیں کریں گے اس لئے ان کا ردعمل روکنے کے لئے امریکہ کی جانب سے بش دور میں ہی ”میزائل شیلڈ“پروگرام وضع کیا گیا تھا کہ اسے پولینڈ کے مقام پر نصب کرکے روس کے کسی بھی ممکنہ میزائل حملے کو راستے میں تباہ کرنے کا اہتمام کیاجاسکے لیکن روس کی شدیدمخالفت کی بنا پر امریکہ اور اسرائیل کو اس محاذ پر پسپائی کامنہ دیکھناپڑا تھا اس کے بعد یہ کوشش جارجیا میں کی گئی جہاں پر روس نے براہ راست فوجیں داخل کرکے اس منصوبے کو خاک میں ملادیا تھا اور امریکی اور اسرائیلی عسکری ماہرین کو اس علاقے سے بھاگنا پڑا تھا۔

اب منصوبہ یہ ہے کہ کردستان پر مشتمل عراق اور شام کے شمالی علاقوں میں حالات کو اس قدر کشیدہ کردیا جائے کہ کرد یہاں اپنی آزاد ریاست کے قیام کی جدوجہد شروع کردیں۔ یاد رہے کردستان کا علاقہ خطے کے چار اہم ترین ملکوں عراق،شام،ایران،اور ترکی کے درمیان تقسیم ہے۔ یقینی بات ہے کہ ترکی کی جانب سے اس منصوبے کے خلاف شدید ترین رکاوٹ ڈالی جائے گی اس لئے انقرہ میں حکومت کی تبدیلی امریکہ اور اسرائیل کے لیے انتہائی ضروری تھی تاکہ یہاں پر ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر اسرائیل نواز انتظامیہ مسلط کرکے”آزاد کردستان“کی اسرائیل نواز ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے جہاں پر امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے اس وقت روسی عسکری پیش قدمی کا راستہ روکنے کے لئے پورا اہتمام کیا جاسکے جب باقی مشرق وسطیٰ پر اسرائیل ہاتھ صاف کرنے کی پوزیشن میں آجائے۔

شام اور عراق کی صورتحال کا انتہا پسندی اور داعش اور دیگر اسلام پسند جنگی تحریکوں کی پیش قدمی کے حوالے سے دنیا کو خوف میں مبتلا کرکے اسرائیل اپنے دفاع کا جواز گھڑے گا اور ایسے جدید اسلحے کے ساتھ نمودار ہوگا جس کا مقابلہ کرنے کا خطے میں عرب ممالک سوچ بھی نہیں سکیں گے۔ اس حوالے سے اب تک دو بڑی رکاوٹیں جو اس کے راستے میں نظر آتی ہیں اس میں پاکستان کے جوہری اثاثے اور ترکی کی اسلام پسند حکومت ہے۔

پاکستان کو جنوبی ایشیا میں ہی قابو کرنے کے لئے امریکہ اور اسرائیل نے بھارت اور کابل کو قریب کیا ہے اور خود تا حال افغانستان سے نکلنے کا ارادہ نہیں رکھتا جبکہ ترکی کی اسلام پسند اردگان حکومت کو ہٹانے کا مقصد ہم اوپر بیان کرچکے ہیں۔ ترکی میں فوجی انقلاب لانے کی کوشش درحقیقت اس سازش کا ایک حصہ تھا جو جنوبی ایشیا سے لیکر مشرق وسطیٰ تک پھیلی ہوئی ہے اسرائیل کے معاملے میں جو دھڑکا کسی زمانے میں مصر سے رہتا تھا وہ اب قاہرہ سے انقرہ منتقل ہوچکا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Turk Awam Ne Amrica Aur Israel Ka Mansooba Khak Main Mila Dia is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 July 2017 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.