والد سایہ بے مثل

ابا جی، ابو جان، ابو، بابا، پاپا سب ایک ہی ہستی کے الگ الگ محبت بھرے نام ہیں، یہ وہ ہستی ہے جسے بچہ ماں کے بعد اپنے سب سے قریب دیکھتا ہے،لفظ ماں سیکھنے کے بعد بچہ اسی ہستی کا نام ابو، بابا یا اباکی شکل میں اپنی زبان سے ادا کرتا ہے

 Waheed Ahmad وحید احمد پیر 17 جون 2019

Walid Saya Bemisaal
ابا جی، ابو جان، ابو، بابا، پاپا سب ایک ہی ہستی کے الگ الگ محبت بھرے نام ہیں، یہ وہ ہستی ہے جسے بچہ ماں کے بعد اپنے سب سے قریب دیکھتا ہے،لفظ ماں سیکھنے کے بعد بچہ اسی ہستی کا نام ابو، بابا یا اباکی شکل میں اپنی زبان سے ادا کرتا ہے، دنیا کا ہر رشتہ رفتہ رفتہ بدل جاتا ہے، لیکن ماں اور باپ کی محبت و شفقت میں کوئی کمی نہیں آتی، یہ وہ شجر سایہ دار ہے جو اپنی اولاد کو زندگی کے سرد و گرم میں سایہ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ فراوانی سے ثمر بھی مہیا کرتا ہے۔

دنیا کا ہر والد چاہے وہ معاشی طور پر کمزور ہی کیوں نہ ہو، اپنی اولاد کے لیے اپنی بساط سے بڑھ کر امیر بننے کی جان توڑ کوشش کرتا ہے،وہ اپنے بچوں کی ہر جائز خواہش پوری کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا ہے اور اس مقصد کے لیے چاہے اسے پہاڑوں کاسینہ چیرنا پڑے یا دریاؤں کا رخ موڑنا پڑے، وہ ایک لمحے کے لیے بھی نہیں ہچکچاتا، نہ کسی صلے کی پرواہ، نہ کسی انعام کا لالچ، ہاں لالچ ہے تو اپنے بچے کی ایک مسکان کا، بچے کی ایک قلقاری کا جو اس کی دن بھر کی تھکن اتار دیتی ہے، اسے احساس دلا دیتی ہے کہ دن بھر کی جان توڑ محنت کا صلہ مل گیا، اپنے بچوں کے لیے ایک باپ کی چاہت، محبت، شفقت اور نظر کرم ایک سی ہوتی ہے لیکن اس کا انداز مختلف ہوتا ہے، بیٹیاں والد کی عزت، آن، بان اور شان ہوتی ہیں، دنیا کے ہر باپ کے لیے اس کی بیٹی قلوپطرہ اور حسن کی دیوی ہوتی ہے جسے وہ زندگی بھر زمانے کے سرد و گرم سے اپنی چاہت کی چھتری میں چھپائے رکھتا ہے وہ اپنی بیٹیوں کی پرورش ایک پرستان کی شہزادی کے سے انداز میں کرتا ہے، اوراس شہزادی کی کوئی بھی خواہش اسکی نوکِ زباں پر آنے سے پہلے ہی پوری کرتا ہے، بازار میں موسم کا نیا پھل آتے ہی خرید کر لاتا ہے ، گھر آتے ہی اپنی لاج دلاری کو محبت بھری آواز دیتا ہے اور پھل اسے پکڑا دیتا ہے کہ یہ میں اپنی گڑیا کے لیے لایا ہوں، اس کی خواہشیں پوری کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں رکھتا، بیٹی کی آنکھ میں آنسو دیکھ ہی نہیں سکتایا شاید دنیا کے ہر باپ میں یہ خاصیت ہے کہ وہ بیٹی کے آنسو دیکھنے کی تاب و حوصلہ ہی نہیں رکھتا، اسکی حتی الامکان کوشش ہوتی ہے کہ اسکی شہزادی ہر وقت ہنستی مسکراتی اور اٹکھیلیاں کرتی رہے، اوربیٹیاں بھی تو اپنے باپ پر اپنی جان وارتی ہیں، ہر پل صدقے واری جاتی ہیں، جیسے ہی وہ گھر آئے، اپنے ہاتھوں سے اسکے جوتے اتارتی ہیں، بھاگ کر پانی کا گلاس اور پھر کھانا پیش کرتی ہیں، اور اسکے بعد ان کو دبانے بیٹھ جاتی ہیں،وہ منع بھی کرے تو مانتی ہی نہیں، بیٹیاں جو ہوئی آخر۔

(جاری ہے)

۔۔! ماں سے ڈانٹ کھانے کے بعد ہر بیٹی اپنے باپ کی گود میں چھپ کر ماں کی شکایت کرتی ہے۔بیٹی چاہے ایک ہوں یا سات، والد کی محبت و شفقت میں کوئی کمی نہیں آتی،یہاں تک کہ اپنے جگر گوشے کو شادی کے وقت رخصت کرتے ہوئے بھی وہ مرد آہن بن کر اس کے سر پر شفقتِ پدری کا ہاتھ رکھے اسے جگ جگ جینے اور ہمیشہ شاد آباد رہنے کی دعاؤں کے ساتھ پیا گھر رخصت کرتا ہے اورپھر بیٹی کی رخصتی کے بعد گھر کے کونے والے کمرے کو اندر سے بند کر کے نیم جاں ہو کر ڈھے جاتا ہے اور پھر اسکے آنسواسکے مصنوعی ضبط کا بندھن توڑ کر سیل رواں بن جاتے ہیں،اسے اپنی بچی کی خوشیوں سے اور کچھ بھی عزیز نہیں ہوتا یہاں تک کہ مرتے دم تک اسکے ہونٹوں پر یہی الفاظ ہوتے ہیں میری بیٹی!
بیٹے والد کی شان ہوتے ہیں،اسکا زورِ بازو، اسکے بڑھاپے کا سہارا ، انکے ساتھ اسکا رشتہ بظاہر سخت ،ٹوکنے والا اور ہر اس بات سے روکنے والا ہوتا ہے جو لڑکے سمجھتے ہیں کے بے جا کے بندھن ہیں لیکن دنیا کے سردوگرم سے آشنا باپ اپنے بچوں کے بھلے کے لیے ہی ان پر معاشی اور معاشرتی قدغن لگاتے ہیں تا کہ اس کی اولادکو زمانے کی بے رحم موجیں نگل نہ لیں، بیٹوں کے لیے بظاہر درشت اور سخت مزاج والد اندر سے موم اور حساس ہوتا ہے، اپنے بیٹے کی صرف سائیکل لینے کی خواہش پوری کرنے کے لیے وہ دوگنا مزدوری اور ایک وقت کے کھانے پر آجاتا ہے، بنا کسی کو احساس دلائے لیکن اس کے دل میں آہنی ہتھوڑے چل رہے ہوتے ہیں جب تک کہ وہ اپنے بیٹے کی خواہش پوری نہیں کر لیتا اور جب اسکا بیٹا اس نئی سائیکل کے پیڈلوں پر اپنے پاؤں مارتا ہے تو اسکے باپ کی خوشی دیدنی ہوتی ہے، محلہ، گاؤں بھر میں ڈھنڈورا پیٹتا پھرتا ہے، لوگو دیکھو میرا جگر گوشہ سائیکل چلا رہا ہے اور بچہ اس بات سے بے فکر اپنی دھن میں سائیکل، موٹر سائیکل، کار چلاتے ہوئے وقت کے پہیے کے ساتھ آگے نکل جاتا ہے یہ سوچے بنا کہ اسکے باپ نے اسکے لیے کتنے فاقے کیے تھے، کتنی دیہاڑیاں دگنی، تگنی لگائی تھیں صرف اسکی ایک سائیکل کی ادنی ٰ سی خواہش کے پیچھے اور پھر یہی بیٹے اپنے باپ کو یہ کہتے ہوئے ایک پل کے لیے نہیں ہچکچاتے کہ " آپ نے ہمارے لیے کیا ہی کیا ہے؟" ۔

اور باپ مسکرا دیتا ہے، اسکے دل میں ایک پل کے لیے بھی ان قربانیوں کا خیال نہیں آتا جو اس نے اپنے بیٹے کے لیے اپنا پیٹ کاٹ کر اور جسمانی مشقت کی صورت میں دی ہوتی ہیں، باپ جو ٹھہرا۔۔۔!
جن کے والد حیات ہیں انہیں چاہیے کے ان کے ہر قول و فعل کی پیروی کریں، ان کا خیال رکھیں، اگر وہ بوڑھے ہیں تو ان کی صحت، ضروریات اور علاج معالجے کا خیال رکھیں کیونکہ ان کے چلے جانے کے بعد وہ محبت ِ پدری کا سایہ کہیں بھی نہیں ڈھونڈ پائیں گے اور زمانے کے سردوگرم ان کو یہ احساس دلا ہی دیں گے کہ خواہشیں تو باپ کے پیسوں سے پوری ہوتی ہیں اپنے پیسوں سے تو ضرورتیں بھی پوری نہیں ہوتیں۔


باپ کی محبت و شفقت، ایثار و قربانی، صبر و خلوص، محنت ، حوصلہ اور ہمت کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں، والد وہ سایہ بے مثل ہے جس کی مثال اس کائنات میں کہیں بھی نہیں ہے۔والد کی عظمت کا دن مبارک ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Walid Saya Bemisaal is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 17 June 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.