ضمیر کسی کا محتاج نہیں

ہم میں ایک خرابی ہے کہ ہم ہر چیز اپنے مطابق چاہتے بجائے خود کو اس کے مطابق ڈھالنے کے....... تو پھر بتائیے انسانیت کیسے آئے گی

پیر 16 دسمبر 2019

zameer kisi ka mohtaj nahi
تحریر: محمد وقاص

دسمبر کی ٹھنڈی صبح اور میرے خیالات ناجانے کیوں منتشر تھے میرے چہرے کا رنگ پھیکا پڑ چکا تھا یہ پہلی بار نہیں ہمیشہ ہی ایسا ہوتا تھا جب میں انسانیت کے بارے میں سوچتا تھا ایک بات مجھے سمجھ نہیں آتی آج کل ہر بندہ خود کو خدا کیوں سمجھتا ہے....اور خدا بھی جو خود اپنی جھولی تک نہیں بھر سکتا.....

خدا صرف اوپر کے درجے پر ہی نہیں بلکہ چھوٹے درجے پربھی ہیں...بڑا درجہ تو یہ ہوگیا نا ایک ایم-این-اے ہے جو سوچتا ہے کہ میں ہی طاقت ہوں میرے آگے کوئی سر نہ اٹھائے....حالانکہ یہ جاہل انسان بھول رہا ہوتا کہ وہ لوگوں کی طاقت نہیں بلکہ ملازم ہے انکا جس کو چنا جاتا ہے کہ وہ حقیقی مالک کے دیے ہوئے اختیارات کو امانت سمجھ کر استعمال کرے مگر شائد امانت میں خیانت تو آجکل ہمارے معاشرے کا شیوہ بن گیا ہے.....

وہ خود کو خدا سمجھ بیٹھا ہے اس بات کے قطع نظر کہ کل اس رب کے روبرو پیش بھی ہونا ہے۔

(جاری ہے)

اور بات یہیں ختم نہیں ہوتی..... ہم طلبا کو ہی لے لو جو فقط خاک کا ڈھیر ہیں ابھی... جو ابھی بھٹی میں جل رہے کہ اینٹ بنیں تو ملک کی کسی عمارت میں لگانے کے کام آئیں لیکن غرور ایسا کہ خود کو نجانے کیا سمجھ بیٹھے ہیں.....

بھول جاتے کہ کوئی ذات ان پر ہر وقت نگرانی کرتی ہے۔۔۔ بھول جاتے کہ کل کو رب کے روبرو بھی پِیش ہونا ہے....

یہاں تک ہم یہ بھی بھول جاتے کہ ہم صِرف اپنے رب کے محتاج ہیں اور تو اور ہم اپنے اس مقصد کو بھی بھول چکے ہیں جس کے لیے ہمیں اس دنیا میں اُتارا گیا..... بھول جاتے کہ ہمیں پیدا ہی انسانیت کے لیے کیا گیا اور افسوس صد افسوس ہم اسی کو کھو چکے ہیں.... انسانیت کے بغیر کھوکھلی روح خدا کو نہیں چاہیے اپنی جنت کے لیے.... اس کے پاس دوزخ بھی ہے۔
ہم میں ایک خرابی ہے کہ ہم ہر چیز اپنے مطابق چاہتے بجائے خود کو اس کے مطابق ڈھالنے کے.......

تو پھر بتائیے انسانیت کیسے آئے گی..... ہم چاہتے کہ دنیا میں سبھی کچھ ملے لیکن اس بات سے بھی جان جاتی ہے کہ کسی کا بھلا نہ کرنا پڑ جائے محنت و لگن بلکل ختم ہو چکی ہے ہم میں سے اور ہم کسی کو اپنے سے اوپر بھی نہیں دیکھ سکتے.... ہم سے برداشت ہی نہیں ہوتا کہ کوئی ہم سے آگے نکل جائے ایسی جلن اور حسد میں نے لوگوں میں بہت دیکھی ہے کہ اپنی آگ میں خود ہی راکھ ہورہے ہوتے اور پھر اگر کوئی گر رہا تو گرتا رہے ہمارا کیا جاتا...

بجائے اس کو سہارا دینے کے ہم حسب توفیق خود اس کے گرنے کا سامان کر دیتے احساس تو جیسے ہم میں بلکل ختم ہوچکا ہے۔
تو بتائیے مجھے کیسے آئے انسانیت..... انسانیت کا بھی دم گھٹتا ہے ایسے معاشرے میں۔مگر اس سب کے باوجود معاشرے میں کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو چاہتے ہیں کہ انسانیت واپس ان کے پاس آئے ان کے ساتھ رہے.. پھر سے وہی ہنستا کھیلتا پر امن معاشرہ بن جائے....

یہ حسد یہ غیبت یہ ہٹ دھرمی اپنے دیس واپس چلے جائیں اور احساس محبت پیار واپس آجائیں......
لیکن وہاں آکر ان کی بریک لگ جاتی کہ ہم اکیلے کیا کریں
عجیب لوگ ہوتے کہ ہم بھی کہتے اور اکیلے بھی کہتے خود کو
میں کہتا ہوں کہ اگر میں بدلتا تو میرے ساتھ پورا معاشرہ بدلتا ہے..... اگر میں ختم کردوں اپنے اندر کا حسد تو میرے ساتھ منسلک معاشرے سے حسد ختم ہوگا....

میں اگر انسانیت کو خوش آمدید کہوں گا تو انسانیت آئے گی......
یاد رکھیے گا کہ تبدیلی شروع ایک انسان سے ہی ہوتی..... کیا تم نے نہیں دیکھا اپنے پیغمبر حضرت محمدﷺ کو کہ جب انہوں نے معاشرے کو بدلنا چاہا تو اکیلے تھے..... مگر حوصلہ اور صبر ضروری ہے اس کے لیے...
ہم میں حوصلہ ہی نہیں فقط الفاظ ہیں اور وہ بھی حوصلہ نہیں دیتے بلکہ شکن کرتے کیونکہ انسانیت کو کھو چکے ہم
صبر اور حوصلہ کے ساتھ مستقل مزاجی کی کنجی، تبدیلی ہے.... یہی خوش آمدید ہے انسانیت کا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

zameer kisi ka mohtaj nahi is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 16 December 2019 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.