سیاسی ڈاکٹریٹ

پیر 4 فروری 2019

Adnan Khan Bonairee

عدنان خان بونیری

ابن آدم روزاول سے ہی طالب علم تھا، ہے اور تا قیامت رہے گا، زندگی میں بہت کچھ سمجھ پایا لیکن ایک سوال ایسا بھی ہے، جو آج بھی جواب طلب ہے، وہ یہ ہے کہ اگر سیاستدان اور بیورو کریٹس پاک دامن ہیں، مومن ہیں، جذبہ انسانیت سے سرشار ہیں، ملک و قوم کے وفادار ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ قدرت کی تمام تر نعمتوں، ہر قسم کے موسم اور جغرافیائی لحاظ سے اہمیت کا حامل ملک پاکستان اکیسویں صدی میں بھی ترقی یافتہ ممالک میں شامل نہ ہوسکا۔


 غریب، غریب تر، امیر، امیر تر ہوتا جارہا ہے، مسائل کے انبار، قرضوں کے پہاڑ ہیں، صحت کا معیار ہے نہ تعلیم کا، بے روزگاری کا خاتمہ ہوا نہ جہالت کا، المیہ یہ ہے کہ ہر آنے والا پچھلی حکومت پر ناکامی، کرپشن اور اقربا پروری کے الزام دھرکر خود کو بری الذمہ قرار دیتا ہے اور حسب روایت عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر بلی کو دودھ کی رکھوالی کا کام سونپ دیا جاتا ہے اور جب یہی سیاست دان، بیورو کریٹ اقتدار، طاقت، دولت اور شہرت کے سحر میں گرفتار ہوں تو موج مستیاں، غیر ملکی دورے، بیش قیمت گاڑیاں، شاہانہ پروٹوکول، شاہی طرز زندگی ان کا وطیرہ ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

 دور دور تک کسی بیماری کے آثار دکھائی نہیں دیتے، جب ان سے حساب مانگا جائے، احتساب کیا جائے تو فوری طور پر دل کا عارضہ، گردوں میں تکلیف اور بلڈ پریشر جیسی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں لیکن25 جولائی 2018ء کے انتخابات میں عوام نے ووٹ کی طاقت سے "راکٹ سائنس" سوال کے جواب اور سیاسی بیماری کا علاج دریافت کرنے کی ایک کوشش کی ہے، وزیراعظم عمران خان اچھے لیکچرار تو ہیں ہی لیکن اب انہیں سیاسی ڈاکٹریٹ میں بھی صلاحیتوں کے جوہر دکھانا ہوں گے،انہیں این آر اوز، باریاں لینے والوں کی مفاہمتی پالیسی اور جمہوریت کو لاحق خطرے کے کھوکھلے نعروں سے ہٹ کر قانون کی بالادستی، تفریق کے خاتمے اور احتساب کیلئے بہترین علاج کرنا ہوگا تاکہ مملکت خداداد کو اس موذی بیماری سے نجات مل سکے ورنہ خان صاحب یاد رکھیں، وقت سب سے بڑا استاد ہے اور تاریخ خود کو دہراتی ہے، شاید پھر آپ کو یہ موقع مئیسر نہ ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :