معاشرہ کفر کے ساتھ تو رہ سکتا ہے، ظلم کے ساتھ نہیں

بدھ 3 جون 2020

Afzaal Chaudhry Maleera

افضال چوہدری ملیرا

ہمارے ملک میں ایک مخصوص طبقے کے ساتھ باعزت بری کا ٹیگ لگا ہوا ہے چاہے وہ جتنا بھی اور جس پر بھی ظلم کریں۔ چاہے وہ حاملہ خواتین پر گولیاں چلائیں چاہے وہ معصوم بچوں کے والدین کو قتل کرکے انہیں یتیم کریں اور ان کے سر کا سایہ ان سے چھین لیں یا چاہے وہ کسی پر تشدد کریں اور ان کے خلاف غیر مہذب الفاظ کا استعمال کریں۔ نہ تو انہیں کسی قانون کا ڈر ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی ایف آئی آر کا خوف اور نہ ہی اس طبقہ میں انسانیت اور اخلاقیات نام کی کوئی چیز ہے یہ طبقہ دولت اور طاقت کے نشے میں ظلم کو فروغ دیتا جا رہا ہے اور ہمارے ملک کے قاضی ان کے ہر ظلم پر لبیک کہنے میں مگن ہیں۔

افسوس کہ آج تک کوئی بھی عدالت یا قاضی انکو سزا نہیں دے پائے۔سزا کے لئے ان پر جرم کا ثابت ہونا لازمی ہے لیکن انہیں یا تو گھر پر بیٹھے ہی من گھڑت کہانیاں بنا کر باعزت بری کر دیا جاتا ہے یا پھر یہ عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر باعزت بری قرار دیئے جاتے ہیں۔

(جاری ہے)


 قانون کے لمبے ہاتھ ہمیشہ غریبوں کے گریبانوں تک ہی محدود رہے ہیں ان ہاتھوں کا رخ کبھی کسی امیر کی طرف نہیں ہوا اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی ایسے والدین جن کے بچوں کو قتل کر دیا گیا اپنے بچوں کی تصویریں لیے عدالت کے دروازے پر انصاف پانے کے لئے فریادیں کرتے نظر آتے ہیں والدین ایک جنازہ تو اپنے بچے کا اٹھتا دیکھتے ہیں جب ان کا لخت جگر ان سے چھین لیا جاتا ہے لیکن جب روزانہ کی بنیاد پر عدالتوں کے چکر کاٹ کاٹ کر انہیں انصاف نہیں مل پاتا تو یہ انصاف کا جنازہ بھی اٹھتا دیکھتے ہیں۔

دولت سے بند کی گئی زبانیں ہمیشہ ظالم کی ہی طرفداری کریں گی مظلوم کی نہیں چاہے ام رباب جیسی بیٹیاں لالٹین لیے ان کے مردہ ضمیر کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لانے کی جستجو کریں یا پھر ننگے پاؤں عدالتوں کے سفر کاٹ کاٹ کر ان سے انصاف کی التجا کریں۔ ساہیوال میں جب معصوم جانوں کے سامنے ان کے والدین کے جسموں کو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا تو کچھ دنوں تک عوام اور میڈیا کے شور مچانے پر قصورواروں کو سزا دینے کے دعوے کیے جاتے رہے لیکن جوں جوں دن گزرتے گئے یتیم بچوں کے حق میں اٹھنے والی آواز دھیمی ہو گئی اور عوام اور میڈیا کا احتجاج آنکھوں سے اوجھل ہو گیا اور یوں معصوم بچوں کو یتیم کرنے والوں کو باعزت بری کر دیا گیا۔

ماضی کا ماڈل ٹاؤن کا واقعہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ جب حکمران طبقے کے خلاف چند پاکستانیوں نے آواز اٹھائی تو تمام پاکستانیوں کے تحفظ کے دعویدار حکمرانوں نے ان لوگوں پر گولیاں چلوائیں اور متعدد لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جن میں حاملہ خواتین بھی شامل تھیں مطلب یہ کہ رحم مادر میں موجود بچوں کو بھی نہ بخشا گیا۔ افسوس کہ اس واقعہ میں ملوث پولیس والوں کے خلاف نام نہاد کارروائی ہوئی لیکن اس کارروائی کا حکم دینے والوں کے خلاف تو کوئی نام نہاد کارروائی بھی نہیں ہوئی وہ تو خود ہی اپنے مقدمے کے جج بھی تھے اور وکیل بھی اور انہوں نے خود سے ہی فیصلہ کرلیا کہ ہم اس سانحے کے قصوروار نہیں ہیں۔

اسی طرح جب ایس ایس پی پولیس راؤ انوار نے نقیب اللہ محسود کو مشکوک قرار دیتے ہوئے اور اس پر کالعدم تنظیموں کے ساتھ تعلقات کا الزام لگا کر قتل کر دیا جس کے بعد ایک بڑی تعداد میں پاکستانی شہری راؤ انوار کے خلاف سڑکوں پر آ گئے تو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کہا کہ راؤ انوار فرار ہو گیا ہے اور وہ اسے ٹریس کرنے کی کافی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ مل نہیں رہا اب یہ بات تو کافی مضحکہ خیز تھی کیونکہ پاکستان کے پاس اتنی قابل خفیہ ایجنسیوں کے ہونے کے باوجود یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ وہ ایک آدمی کو ٹریس نہیں کر پائیں۔

اس بیانیہ کی وجہ یہ تھی کہ راؤ انوار کی پشت پناہی سیاسی اثر و رسوخ والے کچھ لوگ کر رہے تھے۔ بعد میں جب مقدمے میں کچھ پیش رفت ہوئی تو اسے معطل کر دیا گیا اور آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ پاکستان میں معطل ہونا کوئی سزا نہیں بلکہ کچھ دنوں آرام کی تجویز ہے اور اسی طرح کے ظلم پر مبنی اقدامات ہمارے معاشرے کی تباہی و بربادی کا سبب بن رہے ہیں۔

لیکن انہیں ڈرنا چاہیے حشر کے دن سے کہ جب یہ اللہ تعالی کے حضور پیش ہوں گے تو انہیں نہ تو دولت بچا سکے گی نہ شہرت اور نہ ہی طاقت۔ وہ بچے جنہیں رحم مادر میں ہی قتل کر دیا گیا جنہیں یتیم کردیا گیا اور جن کے سروں سے والدین کا سایہ تک چھین لیا گیا۔ جب ان کے ظلم کی داستاں رب کائنات کے سامنے بیان کریں گے تو اس وقت کرنل کی بیوی اور ملک ریاض کی بیٹی کے ٹیگ کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی اس وقت اس کائنات کا سب سے بڑا قاضی فیصلہ سنائے گا اور وہی فیصلہ حتمی ہو گا اور بلاشبہ اسی فیصلے پر عملدرآمد ہوگا۔ اللہ تعالی تکبر سے بھرے عقل کے اندھے ان لوگوں کو ہدایت دے اور ان پر رحم فرمائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :