بھٹو اور خان میں مماثلت - قسط نمبر 2

ہفتہ 3 اپریل 2021

Afzaal Chaudhry Maleera

افضال چوہدری ملیرا

بھٹو اور خان کے درمیان مماثلتوں کی قطار اتنی طویل تھی کہ اسے ایک کالم میں سمیٹنا مشکل تھا سو اسی غرض سے میں نے دوسرا کالم لکھا ہے پہلے کالم میں میں نے کچھ بنیادی مماثلتوں کا تذکرہ کیا لیکن اب اس کالم میں ہم تھوڑا گہرائی میں جا کر انہی بنیادی مماثلتوں سے جنم لینے والی بے شمار مماثلتوں کو الفاظ میں ڈھالنے کی کوشش کریں گے تا کہ کالم پڑھنے والوں کو میرے اس موقف کو سمجھنے میں مزید آسانی ہو۔


تو اب ہم اس طویل قطار کو سمیٹنے کی طرف بڑھتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان میں جو ایک اور بات قدرِ مشترک تھی وہ یہ کہ دونوں نے مغرب میں کافی وقت گزارا اور تعلیم بھی مغرب سے حاصل کی۔
دونوں صاحبان مغربی کلچر میں زندگی کا ایک بڑا حصہ گزارنے کے باوجود جب لیڈر بنے تو سادہ قومی لباس پہنتے اور عوام کو یہ بات باور کروانے کی کوشش کرتے کہ ہمارے جیسا سادگی کو فوقیت دینے والا لیڈر ہی عام عوام کی تکالیف اور مسائل کو سمجھ سکتا ہے۔

(جاری ہے)


دونوں حکمران اکثر عام عوام کے مجموں میں گھل مل جاتے اور ان سے غیر رسمی گفتگو بھی کرتے تھے تا کہ ان کا اعتماد حاصل کیا جا سکے۔
چاہے ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا عمران خان دونوں میں مخالفین کی نقلیں اتارنے کی بات کی بھی قدرِ مشترک ہے میرے اس موقف کو ثابت کرنے کے لئے خان صاحب کے بلاول کے جب بارش آتا ہے تو پانی آتا ہے والے الفاظ دہرانے کا انداز ہی کافی ہے اور اگر ہم بھٹو صاحب کی کوئی ایک مثال لیں تو وہ جنرل ضیاءالحق کے دانتوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔


دونوں حکمرانوں کے حمایتیوں میں اکثریت نوجوانوں کی ہے اور چونکہ پاکستان کی آبادی میں اکثریت نوجوانوں کی ہے تو یقیناً ان کی حمایت حاصل کر لینا ایک سیاستدان کے لئے بہت بڑی کامیابی ہے۔
دونوں حکمرانوں نے ایک مخصوص ہتھیار کے ذریعے سیاسی مخالفین کو کچلنے کی کوشش کی اور اس مقصد کے لئے ذوالفقارعلی بھٹو نے فیڈرل سکیورٹی فورس بنائی جب کہ عمران خان نیب کے ذریعے سیاسی مخالفین کو دبا رہے ہیں اور نیب کے اس احتساب کو سیاسی جماعتیں سیاسی انتقام کا نام دیتی ہیں اور نیب کے آئے روز اپوزیشن جماعتوں کے ممبران پر نئے سے نئے مقدمات بنانے پر اپوزیشن اسے ایک آزاد ادارہ کے بجائے ایک سیاسی ادارہ خیال کرتی ہے جس کا مقصد صرف اور صرف اپوزیشن کو دبانا ہو۔


دونوں حکمرانوں نے کابینہ میں جس قدر اکھاڑ پچھاڑ کی ہے اتنی شاید ہی کسی اور حکمران نے کی ہو، پہلے کسی وزارت کا قلمدان ایک کو سونپا جاتا ہے تو اس کی تعریفوں کے پُل باندھ دیتے ہیں اور ابھی کچھ دن ہی گزرتے کہ اسے نا اہل قرار دے کر اسی وزارت پر کر کوئی نیا بندہ سامنے لایا جاتا، حالیہ دنوں میں حفیظ شیخ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
چاہے عمران خان ہوں یا ذوالفقار علی بھٹو دونوں کتابوں کا مطالعہ کرنے کے شوقین، اچھے لکھاری اور بہت ساری کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔


اس کے علاوہ دونوں حکمران اپنے اپنے لاہور کے جلسے میں عوام کا جم غفیر جمع کرنے کے بعد سیاست میں مزید نمایاں ہوئے اور ایک مضبوط لیڈر کے طور پر ابھرے۔
اور آج کے کالم کی آخری، اہم اور دلچسپ مماثلت یہ ہے کہ دونوں حکمرانوں کا ایک ایک لاڈلا تھا جو انہیں لے ڈوبا، ذوالفقار علی بھٹو کے لاڈلے جنرل ضیاءالحق تھے جنہوں نے چاپلوسی کے ذریعے بھٹو کو اپنے قریب تر کیا اور بدلے میں بھٹو ضیاء الحق کو سب پر فوقیت دینے لگے۔

کئی بار جنرل ضیاء نے اپنے ملک اور فوج کی خدمات کے بدلے بھٹو کو تلوار پیش کی ایک بار انھوں نے بھٹو کو نہ صرف آرمرڈ کور کا تنخواہ نہ لینے والا چیف کمانڈر قرار دیا بلکہ ان کے لیے فوج کی مخصوص وردی بھی سلوائی۔ ان کے بارے میں ایک کہانی مشہور تھی کہ ایک بار ضیاء سگریٹ پی رہے تھے اسی وقت بھٹو کمرے میں داخل ہوئے۔ اس خوف سے کہ بھٹو کو اپنے سامنے سگریٹ پیتے دیکھ کر برا نہ لگے انھوں نے فوراً جلتی سگریٹ اپنی جیب میں ڈال لی تھوڑی دیر بعد کمرے میں کپڑے جلنے کی بو پھیل گئی ذوالفقار علی بھٹو نے سوچا کہ جو شخص ان سے اس قدر ڈرتا ہو وہ ان کے خلاف کیسے بغاوت کر سکتا ہے۔

جب انتخابات کے بعد امن و امان کی صورتحال خراب ہوئی تو بھٹو نے ٹکا خان سے کہا: جنرل آپ کو یاد ہے آپ نے ضیاء کو آرمی چیف بنانے کی مخالفت کی تھی، اب آپ کو اعتراف کرنا پڑے گا کہ میں نے صحیح فیصلہ کیا تھا اگر کوئی دوسرا آرمی چیف ہوتا تو وہ امن وامان کا عذر بنا کر اب تک یہ اقتدار سنبھال چکا ہوتا اور سات گھنٹے بعد ضیاء نے بھی وہی کیا۔
جب کہ عمران خان کے لاڈلے کمانڈر عثمان بزدار ہیں، اگر ہم کمانڈر عثمان بزدار کی بات کریں تو عمران خان انہیں نہایت سیدھا سادہ اور فرشتہ صفت انسان کہتے اور سمجھتے تھے لیکن حقیقت اس کے منافی ہے اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ جو پارٹی پنجاب میں مستحکم ہوتی ہے وہی شہر اقتدار میں جا بیٹھتی ہے لیکن کمانڈر عثمان بزدار کی خراب گورنس کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف کی پنجاب میں پوزیشن بہت ہی کمزور ہے کمانڈر عثمان بزدار کی ساری توجہ رشتہ داروں کو نوازنے اور زیادہ سے زیادہ پروٹوکول میں رہنے پر مرکوز ہے اس کے علاوہ انہیں کٙکھ پتہ نہیں کہ پنجاب میں گورنس کی کیا صورتحال ہے اور اسے کیسے ٹھیک کرنا ہے لاہور جو پنجاب کا دارالحکومت اور جسے پنجاب کا دل بھی کہا جاتا ہے ایک کچرہ گھر بن چکا ہے بن چکا ہے۔


اگر عمران خان کی حکومت اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھی تو اسے ڈبونے میں جس فردِ واحد کا سب سے زیادہ کردار ہو گا وہ کمانڈر عثمان بزدار ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :