
فاتح طالبان اور ورطہ حیرت میں ڈوبی دنیا
ہفتہ 21 اگست 2021

افضال چوہدری ملیرا
جونہی امریکہ نے افغانستان سے انخلا کا فیصلہ کیا تو طالبان نے اپنے اقتدار کا ایک اور دور حاصل کرنے کے لئے کوششیں تیز کر دیں اور صوبائی دارالحکومت تاش کے پتوں کی طرح طالبان کے سامنے گرتے رہے۔
(جاری ہے)
افغان فورسز کسی مقام پر بھی طالبان کو وہ ٹف ٹائم نہیں دے پائیں جس کی دنیا یا امریکہ توقع کر رہا تھا بلکہ خوف و ہراس میں مبتلا افغان فورسز کے کچھ جوانوں نے اپنی جان بچانے کے لئے سرحد پار ممالک مثلاً تاجکستان اور پاکستان وغیرہ میں پناہ لی۔
یوں طالبان نے تقریباً دس دن کی مختصر ترین مزاحمت کا سامنا کرنے کے بعد کابل کے صدارتی محل کو بھی فتح کر لیا۔
اشرف غنی جنہوں نے اپنے صدارتی محل کی پارکنگ میں دورانِ تقریر دھماکے کروا کر خود کو بہادری کی مثال کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی اب سینکڑوں کلومیٹر دور دھماکوں کے خوف سے افغانستان کو خیر آباد کہہ دیا۔
امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ افغان فورسز کی ناکامی میں ہماری کوئی غلطی نہیں کیونکہ ہم صرف تربیت اور جدید ہتھیار مہیا کر سکتے تھے جو کہ ہم نے انہیں کیے پر ہم کسی فوج کو حوصلہ و جذبہ تو نہیں دے سکتے۔
لیکن اگر ہم ایک لمحہ کیلئے یہ تسلیم کر لیں کہ افغان فورسز میں وہ حوصلہ و جذبہ نہیں ہے جو کہ امریکی یا نیٹو افواج میں تھا تو یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا عزم و حوصلہ جو آپ کی افواج میں ہونے کے باوجود انہیں فتح نہ دلوا سکا تو اسی طرز کا عزم و حوصلہ آپ ان کے دلوں میں پیدا کر بھی جاتے تب بھی یہ شکست خوردہ ہی رہتے۔ افغان فورسز کو آپ کی افواج والے عزم و حوصلہ کی ضرورت نہیں بلکہ اس عزم و حوصلہ کی ضرورت تھی جو کہ طالبان جنگجوؤں میں تھا۔ تو معذرت کے ساتھ جو بائیڈن صاحب عزم و حوصلے کی بات آپ کے منہ سے اچھی نہیں لگتی۔
اس کے علاوہ دنیا کو کچھ خدشات لاحق تھے کہ طالبان افغانستان کو فتح کرتے ہی امریکہ کی معاونت کرنے والے افغانیوں کو سخت ترین سزائیں دیں گے، عورتوں کو ان کے حقوق مہیا نہیں کیے جائیں گے، داڑھی کٹوانے پر پابندی ہو گی، افغانستان مختلف دہشت گرد گروہوں کا گھر یا پناہ گاہ بن جائے گا لیکن ان خدشات کے برعکس طالبان نے امریکہ کی معاونت کرنے والے افغانیوں کے لئے عام معافی کا اعلان کر دیا ہے، کسی پر تشدد کی کوئی ویڈیو یا خبر سامنے نہیں آئی، یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے اور عورتوں کو ان کے مکمل حقوق کی یقین دہانی کروائی گئی ہے جس کی عملی مثال گزشتہ دنوں میں دیکھی گئی ہے جب ایک خاتون نیوز رپورٹر رپورٹنگ کرتی اور ایک خاتون نیوز اینکر طالبان رہنما کا انٹرویو کرتی دیکھی گئی ہیں۔
اگر خدانخواستہ طالبان اس حد تک انسانی حقوق مہیا نہیں کرتے جس حد تک کہ توقع کی جا رہی ہے تو پھر بھی کیا طالبان بھارت میں اقلیتوں پر ظلم، امریکہ میں جورج فلائڈ جیسے لوگوں پر جبر اور پاکستان میں مینارِ پاکستان کے سائے تلے پاکستان کی بیٹی کو نوچنے کی طرز کے واقعات اپنے ملک میں سٙرزد کروانے کے حامی ہونگے؟
میرے خیال میں تو دنیا کے دیگر ممالک بالخصوص امریکہ و یورپ اور بلعموم ایشیائی ممالک میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے آپ اس کا جواب نفی میں دینا چاہیں گے۔
خیر ایک بات تو طے ہے کہ اب جب امریکی عہدےدران ورطہ حیرت میں ڈوب کر چپکے سے فاتح طالبان کے سینئر رہنماوں کی طرف دیکھتے ہوں گے تو طالبان رہنما اپنے جنگجوؤں سے ضرور یہ استفسار کرتے ہوں گے کہ۔۔۔
ادھڑے ہوئے بٹن ہیں تو داڑھی بڑھی ہوئی
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
افضال چوہدری ملیرا کے کالمز
-
مودی، یوگی اور معاشرتی تقسیم
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
فاتح طالبان اور ورطہ حیرت میں ڈوبی دنیا
ہفتہ 21 اگست 2021
-
بھٹو اور خان میں مماثلت - قسط نمبر 2
ہفتہ 3 اپریل 2021
-
بھٹو اور خان میں مماثلت - قسط نمبر 1
منگل 30 مارچ 2021
-
مستقبل قریب میں سُکڑتا بھارت
پیر 1 مارچ 2021
-
پی ڈی ایم میں سیاسی فائدہ و بدلہ اور میاں الطاف
اتوار 8 نومبر 2020
-
"ناگورنو کاراباخ کی موجودہ صورتحال اور مقبوضہ کشمیر"
ہفتہ 10 اکتوبر 2020
-
ہم نے آئی جی بدلنے ہیں پر بزدار نہیں بدلنا
بدھ 9 ستمبر 2020
افضال چوہدری ملیرا کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.