فاتح طالبان اور ورطہ حیرت میں ڈوبی دنیا

ہفتہ 21 اگست 2021

Afzaal Chaudhry Maleera

افضال چوہدری ملیرا

امریکہ سوویت یونین والی غلطی دہراتے ہوئے بیس سال پہلے افغانستان میں اس تکبر اور امید سے آیا کہ چونکہ ہم ایک سوپر پاور ہیں تو ہم طالبان کو شکست دینے کا ٹارگٹ محض چند دنوں یا مہینوں میں حاصل کر لیں گے لیکن دیکھتے ہی دیکھتے دن مہینوں میں مہینے سالوں میں اور سال دہائیوں میں تبدیل ہوتے گئے اور طالبان کو شکست دینے کا حصول ممکن نہ ہوا۔

جدید ترین ہتھیار زنگ آلودہ ہتھیاروں کو زیر نہ کر سکے تو بیس سال بعد امریکہ نے شکست خوردہ انداز میں راہِ فرار اختیار کی۔
جونہی امریکہ نے افغانستان سے انخلا کا فیصلہ کیا تو طالبان نے اپنے اقتدار کا ایک اور دور حاصل کرنے کے لئے کوششیں تیز کر دیں اور صوبائی دارالحکومت تاش کے پتوں کی طرح طالبان کے سامنے گرتے رہے۔

(جاری ہے)

افغان فورسز کسی مقام پر بھی طالبان کو وہ ٹف ٹائم نہیں دے پائیں جس کی دنیا یا امریکہ توقع کر رہا تھا بلکہ خوف و ہراس میں مبتلا افغان  فورسز کے کچھ جوانوں نے اپنی جان بچانے کے لئے سرحد پار ممالک مثلاً تاجکستان اور پاکستان وغیرہ میں پناہ لی۔


یوں طالبان نے  تقریباً دس دن کی مختصر ترین مزاحمت کا سامنا کرنے کے بعد کابل کے صدارتی محل کو بھی فتح کر لیا۔
اشرف غنی جنہوں نے اپنے صدارتی محل کی پارکنگ میں دورانِ تقریر دھماکے کروا کر خود کو بہادری کی مثال کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی اب سینکڑوں کلومیٹر دور دھماکوں کے خوف سے افغانستان کو خیر آباد کہہ دیا۔
امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ افغان فورسز کی ناکامی میں ہماری کوئی غلطی نہیں کیونکہ ہم صرف تربیت اور جدید ہتھیار مہیا کر سکتے تھے جو کہ ہم نے انہیں کیے پر ہم کسی فوج کو حوصلہ و جذبہ تو نہیں دے سکتے۔


لیکن اگر ہم  ایک لمحہ کیلئے یہ تسلیم کر لیں کہ افغان فورسز میں وہ حوصلہ و جذبہ نہیں ہے جو کہ امریکی یا نیٹو افواج میں تھا تو یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا  ہے کہ ایسا عزم و حوصلہ جو آپ کی افواج میں ہونے کے باوجود انہیں فتح نہ دلوا سکا تو اسی طرز کا عزم و حوصلہ آپ ان کے دلوں میں پیدا کر بھی جاتے تب بھی یہ شکست خوردہ ہی رہتے۔ افغان فورسز کو آپ کی افواج والے عزم و حوصلہ کی ضرورت نہیں بلکہ اس عزم و حوصلہ کی ضرورت تھی جو کہ طالبان جنگجوؤں میں تھا۔

تو معذرت کے ساتھ جو بائیڈن صاحب عزم و حوصلے کی بات آپ کے منہ سے اچھی نہیں لگتی۔
اس کے علاوہ دنیا کو کچھ خدشات لاحق تھے کہ طالبان افغانستان کو فتح کرتے ہی امریکہ کی معاونت کرنے والے افغانیوں کو سخت ترین سزائیں دیں گے، عورتوں کو ان کے حقوق مہیا نہیں کیے جائیں گے، داڑھی کٹوانے پر پابندی ہو گی، افغانستان مختلف دہشت گرد گروہوں کا گھر یا پناہ گاہ بن جائے گا لیکن ان خدشات کے برعکس طالبان نے امریکہ کی معاونت کرنے والے افغانیوں کے لئے عام معافی کا اعلان کر دیا ہے، کسی پر تشدد کی کوئی ویڈیو یا خبر سامنے نہیں آئی، یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے اور عورتوں کو ان کے مکمل حقوق کی یقین دہانی کروائی گئی ہے جس کی عملی مثال گزشتہ دنوں میں دیکھی گئی ہے جب ایک خاتون نیوز رپورٹر رپورٹنگ کرتی اور ایک خاتون نیوز اینکر طالبان رہنما کا انٹرویو کرتی دیکھی گئی ہیں۔


 اگر خدانخواستہ طالبان اس حد تک انسانی حقوق مہیا نہیں کرتے جس حد تک کہ توقع کی جا رہی ہے تو پھر بھی کیا طالبان بھارت میں اقلیتوں پر ظلم، امریکہ میں جورج فلائڈ جیسے لوگوں پر جبر اور پاکستان میں مینارِ پاکستان کے سائے تلے پاکستان کی بیٹی کو نوچنے کی طرز کے واقعات اپنے ملک میں سٙرزد  کروانے کے حامی ہونگے؟
میرے خیال میں تو دنیا کے دیگر ممالک بالخصوص امریکہ و یورپ اور بلعموم ایشیائی ممالک میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے آپ اس کا جواب نفی میں دینا چاہیں گے۔


خیر ایک بات تو طے ہے کہ اب جب امریکی عہدےدران ورطہ حیرت میں ڈوب کر چپکے سے فاتح طالبان کے سینئر رہنماوں کی طرف دیکھتے ہوں گے تو طالبان رہنما اپنے جنگجوؤں سے ضرور یہ استفسار کرتے ہوں گے کہ۔۔۔
یہ  کون  جھانکتا  ہے ہمیں  آئینے  سے  روز
ادھڑے ہوئے بٹن ہیں تو داڑھی بڑھی ہوئی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :