ہم نے آئی جی بدلنے ہیں پر بزدار نہیں بدلنا

بدھ 9 ستمبر 2020

Afzaal Chaudhry Maleera

افضال چوہدری ملیرا

پاکستان میں پولیس کو ایک کرپٹ ترین ادارہ خیال کیا جاتا ہے اور تصور کیا جاتا ہے کہ یہ عام آدمی کی حفاظت کی بجائے ایک مخصوص طبقہ کی خدمت میں مگن رہتے ہیں اور یہ مخصوص طبقہ ان کی خدمت کے بدلے انہیں ہر طرح کی آسائش و آرام کا سامان مہیا کرتا ہے وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے اپنے بہت سے جلسوں میں اس بات پر زور دیا کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو وہ اس کرپٹ محکمہ کے سٹرکچر کو اصلاحات کے ذریعے بہتر بنائیں گے اور اسے ایک پروفیشنل اور مضبوط ادارہ بنائیں گے جو کہ کسی بھی قسم کی سیاسی مداخلت سے پاک ہو گا اور انہوں نے متعدد بار اس بات کا تذکرہ کیا کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی جیسی جماعتوں نے پولیس کے ادارہ میں مداخلت کر کر کے اسے ایک بے اختیار اور مفلوج ادارہ بنا دیا ہے اس حقیقت کو نہیں جھٹلایا جاسکتا کہ تحریک انصاف نے کے پی کے پولیس میں جو اصلاحات کیں ان سے کے پی کے پولیس کی کارکردگی میں کافی حد تک بہتری آئی لیکن پنجاب پولیس کا مسئلہ کے پی کے پولیس سے زیادہ پیچیدہ تھا جس کی بنیادی وجہ اس کا سٹرکچر اور سیاسی مداخلت تھی۔

(جاری ہے)


آج تحریک انصاف کی حکومت کو دو برس سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے کیا پنجاب کی پولیس میں وہ بہتری آئی جس کے عمران خان صاحب دعوے دار تھے؟ تحریک انصاف کی حکومت نے اس عرصہ میں چھٹا انسپکٹر جنرل تعینات کر دیا ہے آئی جی کلیم امام تین ماہ، محمد طاہر ایک ماہ، امجد جاوید سلیمی چھ ماہ، عارف نواز سات ماہ جبکہ پانچویں آئی جی پنجاب جو کہ شعیب دستگیر تھے وہ نو ماہ تک عثمان بزدار کے معیار پر پورا اتر سکے جس کے بعد اب حال ہی میں ان کو بھی اپنے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے اب انعام غنی صاحب کو نیا آئی جی پنجاب تعینات کیا گیا ہے اور ان کا دعوی ہے کہ اگر ہمیں آبادی کے مطابق نفری، گاڑیاں اور اسلحہ مہیا کیا جائے تو ہم آپ کو ایک امپرووڈ اور کے پی کے کے مقابلے کی پولیس فورس دیں گے بشرطیکہ ہمارے ان چند مسائل کو حل کیا جائے لیکن انہوں نے پولیس میں اصلاحات اور اکاؤنٹبلٹی کا مطالبہ حکومت وقت سے نہیں کیا جبکہ کے پی کے پولیس جسے باقی صوبوں کی پولیس کی نسبت بہتر پولیس خیال کیا جاتا ہے اس کی وجہ اس میں کی جانے والی بے شمار مؤثر اصلاحات تھیں۔


اگر ہم سی سی پی او لاہور شیخ محمد عمر اور آئی جی شعیب دستگیر کے تناذع کی اندرونی کہانی کو سمجھنے کی کوشش کریں تو وہ کچھ یوں ہے کہ شعیب دستگیر صاحب نئے سی سی پی او لاہور شیخ محمد عمر کے محکمہ میں ریپوٹیشن اور ریکارڈ اچھا نہ ہونے کی وجہ سے ان کے خلاف تھے اور انہوں نے حال ہی میں ہونے والی ایک سینئر آفیسرز کی میٹنگ میں شیخ محمد عمر کے عہدے میں ترقی کی تجویز کو مسترد کر دیا تھا اور شعیب دستگیر صاحب کا یہ موقف تھا کہ چونکہ شیخ محمد عمر کی ادارے میں ریپو اور کارکردگی زیادہ اچھی نہیں ہے تو اس لیے انہیں ترقی نہیں ملنی چاہیے اور یوں شیخ محمد عامر کو ترقی نہیں دی گئی۔


اب جب شیخ محمد عمر کو لاہور کا نیا سی سی پی او تعینات کیا گیا تو شیخ محمد عمر نے لاہور کے سینئر آفیسرز کی ایک میٹنگ بلائی جس میں انہوں نے کچھ آفیسرز کے بارے میں نیگیٹیو ریمارکس دئیے اور یہ کہا کہ " آئی جی پنجاب مجھے پروموٹ نہیں ہونے دے رہا تھا لیکن میں اب اپنے بل بوتے پر یہاں تک پہنچا ہوں" اس بات کو کسی آفیسر نے شعیب دستگیر تک پہنچا دیا شعیب دستگیر کا کہنا تھا کہ سی سی پی او لاہور نے اپنے کمانڈر کے خلاف بات کر کے رولز کی خلاف ورزی کی ہے شعیب دستگیر عمران خان صاحب اور عثمان بزدار سے بھی ملے اور انہیں سی سی پی او کے بارے میں اپنے تحفظات سے آگاہ کیا لیکن کسی نے انہیں گھاس نہیں ڈالی شعیب دستگیر کا یہ موقف تھا کہ آپ نے مجھ سے مشاورت کیے بغیر صوبائی دارالحکومت میں ایک ایسے شخص کو سی سی پی او تعینات کیا ہے جس کا پولیس میں ریکارڈ اور کارکردگی زیادہ اچھی نہیں ہے لیکن حکومت نے سی سی پی او کو آئی جی پر فوقیت دی شعیب دستگیر کا وفاقی اور صوبائی حکومت سے اس بات پر تنازعہ ہو گیا اور نتیجتاً شعیب دستگیر صاحب کو عہدہ سے ہٹا دیا گیا۔


اب ضرورت اس اٙمر کی ہے کہ اس بات کو سمجھا جائے کہ سی سی پی او لاہور حکومت کے لئے اتنے اہم کیوں ہیں کہ انہوں نے اس کے لئے آئی جی کی قربانی دی تو اس کا جواب یہ ہے کہ نئے سی سی پی او لاہور شیخ محمد عمر ایک سخت گیر پولیس آفیسر ہیں اور انہوں نے اپنے نام سے منسوب ایک شیخ عمر فارمولا بنایا ہوا ہے جو کہ ٹارچر پر مبنی ہے اور اسی کو یہ فوقیت دیتے ہیں اصل میں لاہور میں کچھ گینگز پھر سے پر تولنے لگے ہیں اور قبضہ مافیا اور بھتہ خوری میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جبکہ اگر ہم سیاسی پہلو کو دیکھیں تو حال ہی میں نون لیگی کارکنان نے نیب آفس کے سامنے جو پتھراؤ کیا تو اس واقعے پر سابق سی سی پی او پر الزامات تھے کہ وہ نون لیگ کے کافی فرمانبردار ہیں اور یہی وجہ تھی کہ انہوں نے سب کچھ جاننے کے باوجود یہ سب ہونے دیا اور اس کو روکنے کے لیے پہلے کوئی پلان تیار نہیں کیا۔

 
تو ان تمام وجوہات کو دیکھتے ہوئے تحریک انصاف کے پاس شیخ محمد عمر سے بہتر کوئی آپشن نہیں تھا اور ان کی تعیناتی کے خلاف صرف شعیب دستگیر نہیں بلکہ عثمان بزدار بھی تھے کیونکہ جب یہ ڈی جی خان میں تعینات رہے تو انہوں نے ان لوگوں کو بھی نہیں بخشا جو عثمان بزدار کے قریب تھے اور ان کی بھی گرفتاریاں وغیرہ کیں اور عثمان بزدار کو صرف آئی جیز سے ہی نہیں بلکہ چیف سیکرٹریز سے بھی گلے شکوے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے اور اسی بناء پر آئی جی کے ساتھ ساتھ چیف سیکرٹری بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔


جبکہ پولیس کا یہ موقف ہے کہ سی سی پی او لاہور کی تعیناتی کا فیصلہ سیاسی جماعتوں یا پھر حکومت کو نہیں بلکہ آئی جی پنجاب کو کرنا چاہیے اور اگر حکومت یہ فیصلہ خود کرتی ہے تو پھر اس صورت میں اسے پہلے آئی جی سے مشاورت کرنی چاہیے اور ان کا یہ موقف بلاشبہ درست بھی ہے لیکن صد افسوس کہ جو عمران خان اقتدار میں آنے سے پہلے پولیس کے محکمے کو سیاسی مداخلت سے پاک کرنے کا دعوی کرتے رہے وہ خود اس محکمہ میں سیاسی مداخلت کو فروغ دے رہے ہیں اور پولیس میں اصلاحات کے بارے میں کوئی پیش قدمی نہیں ہوئی ہے اور جب تک پولیس میں اصلاحات اور اسکی اکاؤنٹبلٹی کا کوئی جامعہ طریقہ کار اور اسے سیاسی مداخلت سے پاک نہیں کیا جائے گا تب تک چھ آئی جی تو کیا چالیس آئی جی بدلنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑنے والا وزیراعظم پاکستان عمران خان صاحب کو چاہیے کہ وہ پنجاب میں آئی جی اور چیف سیکرٹری بدلنے کی بجائے پولیس میں اصلاحات اور اسے سیاست سے پاک کرنے کے علاوہ بزدار کو بدلنے کا آپشن بروئے کار لائیں ہو سکتا ہے کہ بزدار کی تبدیلی پنجاب کے لیے گیم چینجر ثابت ہو کیونکہ بزدار صاحب نے تو شروع سے ہی ایک ہی بچگانہ اور معصومانہ رٙٹ لگائی ہوئی ہے کہ بیوروکریسی اور پولیس میرے ساتھ تعاون نہیں کر رہی اور ان کی اس معصومانہ ضِد پر عمران خان صاحب کبھی آئی جی تبدیل کر دیتے ہیں تو کبھی چیف سیکرٹری۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :