مستقبل قریب میں سُکڑتا بھارت

پیر 1 مارچ 2021

Afzaal Chaudhry Maleera

افضال چوہدری ملیرا

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ لداخ میں تنازعہ کی وجہ سے چین اور بھارت کے تعلقات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے فوجی اور سیاسی سطح پر مذاکرات ہونے کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری کی طرف کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی بلکہ حالات گزرتے دنوں کے ساتھ مزید کشیدگی کی طرف جا رہے ہیں چین بھارت کے دفاعی و جغرافیائی کمزوریوں کی طرف پیش قدمی کر رہا ہے جس کی وجہ سے لداخ کے علاوہ سات ریاستیں کھونے کا خطرہ بھی بھارت کے سر پر منڈلا رہا ہے۔

۔۔ کیسے؟ یہ وضاحت میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔
اگر آپ بھارت کے نقشے پر نظر دوڑائیں تو اس پر ایک سلیگوری کوریڈور (Siliguri Corridor) ہے جو سات ریاستوں پر مشتمل ہے جن میں اروناچل پردیش، آسام، میگھالیہ، منی پور،  میزورم، ناگالینڈ، اور تریپورہ شامل ہیں جنہیں مرغی کی گردن اور بھارت کی سب سے بڑی دفاعی کمزوری خیال کیا جاتا ہے یہ تقریباً 60 کلومیٹر لمبا اور 22 کلومیٹر چوڑا کوریڈور ہے ہندوستانی ریاست مغربی بنگال میں یہ کوریڈور ہندوستان کی شمال مشرقی ریاستوں کو باقی ملک کے ساتھ جوڑتا ہے۔

(جاری ہے)


جون 2020ء کو لداخ میں جو کچھ ہوا وہ تو بھارت کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے ہی لیکن بھارت کو جس چیز کی زیادہ فکر کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنی مرغی کی گردن چین کے ڈریگن سے بچا سکے مرغی کی گردن کے نیچے بنگلہ دیش ہے اور سامنے چین جبکہ بھوٹان اور نیپال دائیں اور بائیں جانب ہیں اب بھارت کے ساتھ بھوٹان اور نیپال کے تعلقات اچھے نہیں ہیں نیپال بھی ون بلٹ ون روڈ پروجیکٹ کا حصہ بن چکا ہے اس کے علاوہ چین نیپال میں سڑکوں پر ایک بڑی سرمایہ کاری کر رہا ہے ڈوکلام کے علاقے کو لے کر بھوٹان اور چین کے مابین تنازعہ چل رہا ہے اگر اس مسئلے کو چین بھوٹان سے بات چیت کے ذریعے حل کر لیتا ہے تو ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنا بہت آسان ہو گا کیونکہ ڈوکلام کا علاقہ سلیگوری کوریڈور کے بہت قریب ہے۔


اس خطرے کے پیش نظر امریکہ نے بھارت کی درخواست اور اپنی چین مخالف پالیسی کو برقرار رکھتے ہوئے ایک
بِل پاس کیا جس کا مقصد ٹرمپ کو یہ اختیار دینا تھا کہ وہ تبت کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرے لیکن ہندوستانی اور امریکی ابھی تک اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں اور اب ٹرمپ کا دورِ اقتدار اختتام پذیر ہو چکا ہے۔
تبت کا چین کے ساتھ الحاق 1951ء میں ہوا تھا اور یوں چین کو تبت کے ذریعے  سِکم (Sikkim) کے علاقہ  تک رسائی حاصل ہوئی تھی سِکم  بھارت، بھوٹان اور چین کے درمیان سہ رخی جنکشن اور چین اور بھارت کے درمیان جنگ کا مرکز ہے تبت کو "واٹر ٹاور آف ایشیاء" بھی کہا جاتا ہے تبت سطح سمندر سے تقریباً 14،800 فٹ بلندی پر ہے۔


تبت پاکستان ، بھارت اور چین وغیرہ سمیت کئی بڑے ممالک کو سیراب کرنے والے تقریبا دس بڑے دریاؤں اور ندیوں کا گھر ہے ان میں سے ایک دریا برہما پُتر (Brahmaputra)ہے اس دریا  کا تقریباً 55٪ حصہ تبت، نیپال اور بھوٹان کو جبکہ 33٪ بھارت  کی ان سات ریاستوں کو سیراب کرتا ہے ان سات ریاستوں میں رہائش پذیر لاکھوں بھارتی پانی کے لئے اس دریا پر انحصار کرتے ہیں۔


چین نےاب تک اس دریا پر چار ڈیم بنائے ہیں اروناچل پردیش کی ریاست جو ان سات ریاستوں میں سے ایک ہے کے قریب مِی ڈونگ کا علاقہ ہے اس علاقے میں دنیا کی گہری ترین وادی ہے جو ڈیم بنانے  کے لئے مفید ہے چین نے حال ہی میں کہا ہے کہ ہم سب سے بڑے ہائیڈرو پاور پروجیکٹ پر کام کرنے جا رہے ہیں دریائے برہما پُتر پر چین کا یہ تاریخی  منصوبہ چین کے 14 ویں پانچ سالہ سالانہ منصوبے کا حصہ ہے اگر چین اس دریا پر یہ ڈیم بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ سات ریاستیں اپنی پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے چین کے رحم و کرم پر ہوں گی اور چین جب چاہے ان کا پانی بند کر دے اور ان سات ریاستوں سے اپنے مطالبات منوائے یقیناً ان ریاستوں کے رہائشیوں کے پاس صرف چین کی اطاعت کا راستہ بچے گا  اور اگر ایسا ہوتا ہے تو ہندوستان کی مرغی کی گردن کاٹ دی جائے گی اور اسے دو حصوں میں  تقسیم کر دیا جائے گا۔


اس کے علاوہ حال ہی میں بھارت نے یہ دعوی کیا ہے کہ چین نے  ایک گاؤں تعمیر کیا  ہے جس کا ایک حصہ اروناچل پردیش کی سرزمین پر ہے انہوں نے اس حوالے سے سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر بھی شئیر کیں۔ تو اگر ہم ان تمام حقائق کو مدِ نظر رکھیں تو چین کی بھارت کی ان سات ریاستوں کی طرف بڑھتی ہوئی پیش قدمی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ مستقبل میں بھارت کا طویل نقشہ سکڑنے کے امکانات کافی بڑھ چکے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :