مودی، یوگی اور معاشرتی تقسیم

ہفتہ 13 نومبر 2021

Afzaal Chaudhry Maleera

افضال چوہدری ملیرا

جب سے مودی بھارت کے وزیراعظم اور یوگی آدتیہ ناتھ اتر پردیش کے وزیرِ اعلی بنے ہیں ہر معاملے میں اقلیتوں، ادیبوں، دانشوروں، فنکاروں اور کھلاڑیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
آپ کو یہ باور کروانے کے لیے کہ کیسے انتہا پسندی کے جذبات کو ابھارنے سے بھارت میں معاشرتی تقسیم جنم لے رہی ہے میں کچھ واقعات کا تذکرہ کرتا ہوں۔
حال ہی میں شیو سینا کے ایک رہنما نتن نند گاؤکر ممبئی کے علاقے باندرہ میں ایک دکان کراچی سویٹس کے مالک کے پاس گئے اور اسے اپنی بیکری کا نام تبدیل کرنے کو کہا محض اس لیے کہ کراچی کی نسبت پاکستان سے ہے۔


وائرل ویڈیو میں شیو سینا کے رہنما نے کہا کہ "تمہیں اسے بدلنا ہی ہو گا، ہم تمہیں کچھ وقت دے رہے ہیں کراچی کو بدل کر کچھ مراٹھی میں رکھ لو کراچی نام سے مطلب آپ پاکستان کے ہو۔

(جاری ہے)

اس سے ہمیں بہت تکلیف ہوتی ہے ہمیں اس نام سے نفرت ہے، ممبئی میں ایسے ناموں کو نہیں رہنے دیا جائے گا، اسے آپ کو بدلنا ہو گا۔"
جس کے بعد 'کراچی سویٹس' کے مالک نے اپنی دکان کے سائن بورڈ کو اخباری کاغذ سے ڈھک دیا۔


انڈیا میں ایک ویب سیریز آشرم کے سیٹ پر بجرنگ دٙل نے حملہ کیا ہے یہ دائیں بازو کی تنظیم آر ایس ایس کی زیرِ سرپرستی کام کرتی ہے چند روز قبل اس تنظیم نے بھوپال میں پرانی جیل کے احاطے میں دھاوا بولا ہے وہاں بولی ووڈ کے معروف ہدایتکار "پرکاش جھا"  بھی آشرم کی شوٹنگ کے لئے سیٹ پر موجود تھے۔ وائرل ہونے والی ویڈیوز میں یہ انتہا پسند کارکن توڑ پھوڑ اور نعرہ بازی کرتے نظر آ رہے ہیں اس کے علاوہ ہدایتکار پرکاش جھا کو پکڑ کر ان کے چہرے پر کالک مٙل دی لیکن اس تنظیم کے ایک رہنما نے مزید کہا کہ فی الحال ہم اس ویب سائٹ کے اداکار بوبی دیول کو ڈھونڈ رہے ہیں اس کو اپنے بھائی سنی دیول سے کچھ نہ کچھ سیکھنا چاہئے جس نے دیش بھگتی پر بہت ساری فلمیں بنائی ہیں۔

یاد رہے کہ بوبی دیول کے خاندان کے تین افراد ممبرانِ پارلیمنٹ رہ چکے ہیں اور ممبران کا تعلق بی جے پی سے  ہونے کے باوجود  اس خاندان کے افراد  انتہا پسندی سے محفوظ نہیں ہیں۔
دوسری طرف بھارتی حکمراں جماعت 'بھارتیہ جنتا پارٹی' سے تعلق رکھنے والے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ "یوگی آدتیہ ناتھ" ان مختلف شہروں کے نام بدلنے کی مہم پر کاربند ہے جو کسی مسلم شخصیت کے نام سے منسوب ہیں۔


واضح رہے کہ اترپردیش کے مختلف مقامات کے نام تبدیل کیے جا چکے ہیں۔ جیسا کہ الٰہ آباد کا پریاگ راج، مغل سرائے کا پنڈت دین دیال اپادھیائے نگر اور فیض آباد کا نام ایودھیا رکھا جا چکا ہے۔
ایک اور ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ہندو انتہا پسندوں نے ایک مسلمان رکشہ ڈرائیور اور اس کی بچی پر حملہ کر دیا اور کہتے رہے کہ "جے شِری رام" بولو اور معصوم بچی کے سامنے اس کے باپ کو تشدد کا نشانہ بناتے رہے بعد میں پولیس دیر سے پہنچی لیکن ان باپ بیٹی کی جان بچائی۔


لیکن ان انتہا پسندوں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ جب کرونا کے دوران ہندو پنڈتوں نے مندروں کے دروازے بند کر دیے اور اپنے خزانے لپیٹ لیے تو مسلمانوں نے اپنی مسجدوں کو کرونا سے متاثر لوگوں کے لئے کھولا اور وارڈز میں تبدیل کر دیا باوجود اس کے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کے گھروں کو جلایا جا رہا تھا اور ان پر تشدد کیا جا رہا تھا حتی کہ کرونا پھیلانے کا قصوروار بھی مسلمانوں کو ہی ٹھہرایا جا رہا تھا۔


اس کے علاوہ سکھوں نے چند روز پہلے لندن میں اپنا ریفرینڈم کروایا ہے جس میں تقریبا تیس ہزار سے زیادہ لوگوں نے حصّہ لیا اور جب بھارتی وزیراعظم برطانیہ گئے ہیں تو خالصتان موومنٹ کے پر تولنے کے خطرے کو مدِنظر رکھتے ہوئے بورس جانسن سے ملاقات کے دوران ان کا اہم ایجنڈا یہ حالیہ ریفرینڈم ہی رہا اور اب بھارت اور برطانیہ کے قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات بھی متوقع ہے جس میں اس موضوع پر تفصیلی بات کی جائے گی۔


لیکن سِکھ کسانوں پر بڑھتا ہوا ظلم اس بات کی شہادت ہے کہ ایک اور ریفرنڈم اب بھارت کا بھی رخ کرے گا۔
مسلمان طالب علموں کو پاکستان کی جیت کا جشن منانے پر گرفتار کیا جانا، خاتون ٹیچر کو پاکستان کی جیت کے حق میں واٹس ایپ اسٹیٹس لگانے پر سکول سے نکالا جانا، بھارت کے معروف گیند باز محمد شامی پر غدار ہونے کا الزام بھی اسی معاشرتی تقسیم کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔


راہول گاندھی نے ٹوئٹر پر ایک ڈیٹا شیئر کیا ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ مودی صاحب کے دورِ حکومت میں گزشتہ پانچ سالوں میں ایک لاکھ افراد نے خودکشی کر لی ہے۔
ان تمام عناصر کی بھارت میں پھیلنے کی بڑی وجہ بلعموم سماجی و معاشی بدحالی اور بالخصوص وہ "معاشرتی تقسیم" ہے جس کو مودی اور یوگی نے بھارت میں پروان چڑھایا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے انتہا پسندی کے جذبات کو ابھار رہے ہیں جس میں ان کا اہم ہدف مذہبی اقلیتیں ہیں۔


اب ضرورت اس اٙمر کی ہے کہ بھارتی ہندو، سِکھ اور مسلمان مودوی اور یوگی جیسے انتہا پسند حکمرانوں سے چھٹکارا پا کر کسی ایسے حکمران کا اپنے لئے انتخاب کریں جو معاشرتی تقسیم کی بجائے معاشرتی اتحاد کا حامی ہو اور جس کا دل بھارت میں موجود مختلف معاشرتی طبقات اور مذہبی اقلیتوں کے احترام کا مسکن ہو۔
جو کہ بظاہر تو ایک خوابِ نا تعبیر ہی لگ رہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :