پی ڈی ایم میں سیاسی فائدہ و بدلہ اور میاں الطاف

اتوار 8 نومبر 2020

Afzaal Chaudhry Maleera

افضال چوہدری ملیرا

جب مسلم لیگ (ن) کے اقتدار کا دورانیہ ختم ہوا اور پاکستان میں دوبارہ انتخابات ہوئے تو پاکستان تحریک انصاف کو فتح نصیب ہوئی اور عمران خان صاحب نے اقتدار سنبھالا، عمران خان صاحب نے اقتدار میں آتے ہی اپوزیشن کے خلاف احتساب کا ایک سخت گیر عمل شروع کیا جو کہ اپوزیشن کے بقول سیاسی انتقام تھا جب کہ حکومت کے بقول غیر جانبدارانہ اور منصفانہ احتساب تھا اپوزیشن کا یہ مؤقف تھا کہ عمران خان ایک سلیکٹڈ اور نا اہل وزیراعظم ہے جو ہم پر مسلط کیا گیا ہے۔

اے پی سی سے پہلے تک عمران خان کو سلیکٹڈ تو کہا جاتا رہا لیکن سلیکٹرز کی نشاندہی نہیں کی گئی۔ پیپلز پارٹی کی میزبانی میں ہونے والی اے پی سی میں نہ صرف عدلیہ بلکہ فوج پر بھی کڑی تنقید کی گئی اور فوج پر تنقید کے لیے منتخب شدہ الفاظ کا ایک بڑا حصہ میاں محمد نواز شریف صاحب نے اپنی مبارک زبان سے بیان فرمایا۔

(جاری ہے)

اے پی سی میں اپوزیشن نے سخت گیر مؤقف اپنایا اور اقتدار سے دوری جو کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے اذیت سے بھرپور ہوتی ہے کا غصہ نہ صرف حکومت بلکہ ریاستی اداروں پر بھی نکالا اور اسی اے پی سی کے بطن سے پی ڈی ایم (پاکستان  ڈیموکریٹک موومنٹ) نے جنم لیا، اپوزیشن جماعتوں کا یہ بیانیہ تھا کہ وہ اس موومنٹ کے ذریعے پاکستان میں جمہوریت کو بحال کریں گی۔


پی ڈی ایم جو کہ اپوزیشن پارٹیوں پر مبنی گیارہ جماعتی اتحاد تھا میں سب سے پہلا اور مشکل فیصلہ اس کے سربراہ کا چناؤ تھا چونکہ مولانا فضل الرحمان کا اے پی سی پی ڈی ایم تک اہم کردار رہا تھا تو انہیں پی ڈی ایم کی صدارت سونپی گئی، مزید مولانا صاحب کو یہ تک کہا گیا کہ اگر اس گیارہ جماعتی اتحاد میں سے کسی بھی پارٹی نے اقتدار سنبھالا تو پاکستان کے صدر ہونے کا شرف آپ کو نصیب ہو گا، یہ فیصلہ ان کے ماضی کو دیکھتے ہوئے کیا گیا کیونکہ مولانا صاحب نے  ماضی میں بھی بغیر کسی لارے و لالچ کے کسی کا ساتھ نہیں دیا جیسا کہ ماضی میں انہوں نے بے نظیر صاحبہ کے وزیراعظم بننے کے بعد یہ کہا کہ اسلام میں عورت کی حکمرانی جائز نہیں لیکن جب انہیں ڈیزل کے پرمٹ دیے گئے تو انہوں نے اپنا موقف بدلہ اور کہا کہ کون کہتا ہے کہ اسلام میں عورت کی حکمرانی جائز نہیں؟
اب میں آتا ہوں پی ڈی ایم کے سیاسی بدلے اور فائدے کی طرف، پی ڈی ایم کا پہلا جلسہ مسلم لیگ (ن) کی میزبانی میں گوجرانوالہ میں ہوا جسے (ن) لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اس جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف صاحب نے ہر حد پار کر لی اور فوج پر براہ راست چڑھائی کی جس کی وجہ ان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمتی عمل میں ناکامی تھی، نواز شریف صاحب نے کہا کہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض تم نے عمران خان ہم پر مسلط کیا ہے جس کا جواب تم لوگوں کو دینا پڑے گا۔

جب کراچی میں پیپلز پارٹی کی میزبانی میں پی ڈی ایم کا دوسرا جلسہ ہوا تو پیپلز پارٹی نے (ن) لیگ کو اس بات پر راضی کر لیا کہ اس جلسہ میں نواز شریف کو تقریر نہیں کرنے دی جائے چونکہ یہ جلسہ پیپلز پارٹی کی میزبانی میں ہو رہا تھا تو  پیپلزپارٹی یہ نہیں چاہتی تھی کہ فوج پر براہِ راست چڑھائی جو کہ نواز شریف کی ذاتی لڑائی ہے ہم اس کا حصہ بنیں۔

کراچی جلسہ میں مریم نواز شریف صاحبہ نے بی بی شہید کے شفیق ہونے کے قصے سنانے کے علاوہ نانی کے رشتے کی ایک جامع تعریف بیان فرمائی کہ اصل میں نانی کا رشتہ ہے کیا؟ جبکہ دیگر اپوزیشن جماعتوں کے سربراہان کی تقریر کا مرکز عمران خان صاحب رہے یوں پیپلز پارٹی اپنی میزبانی میں فوج پر براہ راست چڑھائی نہ کروانے کی پالیسی میں کامیاب رہی۔
مولانا فضل الرحمٰن کی میزبانی میں جب کوئٹہ میں پی ڈی ایم کا تیسرا  جلسہ ہوا تو بلاول بھٹو صاحب نے گلگت میں اپنی انتخابی مہم کی مصروفیات کا بہانہ کرتے ہوئے جلسہ میں براہِ راست شرکت سے معذرت کر لی لیکن بلاول بھٹو صاحب کے شرکت نہ کرنے کی سیاسی وجہ یہ تھی کہ انہیں اس بات کا خدشہ تھا کہ کوئٹہ جلسہ میں بغاوت کے جملے بولے جائیں گے جن میں سے ایک جملہ بلوچستان کو آزاد اور خود مختار ریاست بنانے کا تھا۔

کوئٹہ جلسہ میں نواز شریف صاحب نے عوام کو اس بات پر اکسایا کہ وہ فوج کے خلاف کھڑے ہو جائیں اور ساتھ یہ بھی کہا کہ کوئی بھی فوج عوام کے ساتھ نہیں لڑ سکتی، انہوں نے فوجی جوانوں کو فوجی افسران کے خلاف بھڑکانے کی بھی کوشش کی، مریم نواز صاحبہ نے یہ کہا کہ بچوں کی زبان سے لاپتہ افراد کا سن کر زندگی میں پہلی دفعہ میری آنکھوں میں آنسو آئے لیکن سوشل میڈیا پر جن لاپتا افراد کی تصاویر مریم نواز کے ساتھ دیکھی گئیں وہ پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث تھے آپ لوگوں کی حیرانی کو کم کرنے کے لئے میں صرف اتنا بتا دوں کہ ان میں سے ایک چینیز کونسلیٹ پر حملے کا ماسٹر مائنڈ تھا۔


پیپلزپارٹی اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ (ن) لیگ ہو یا دیگر اپوزیشن جماعتیں پیپلز پارٹی کا سیاسی مستقبل ان سے زیادہ روشن ہے کیونکہ ایک تو ان کی ایک صوبہ میں حکومت ہے اور ابھی تک سندھ کے لوگ ان کے ساتھ کافی لگاؤ رکھتے ہیں دوسری بات یہ کہ گلگت کے الیکشن میں بھی پیپلز پارٹی کی پوزیشن کافی مستحکم ہے تو ایک ایسی پارٹی جس کا سیاسی مستقبل روشن ہو وہ کبھی بھی ان جماعتوں کے بیانیہ کے ساتھ کھڑی نہیں ہو گی جو کہ ریاست مخالف ہوں۔


چونکہ جمہوریت سب سے بہترین انتقام ہے تو جمہوری طریقے سے پیپلز پارٹی نے (ن) لیگ سے سیاسی بدلہ لیا ہے کیونکہ ماضی میں (ن) لیگ نے آصف علی زرداری صاحب سے کہا کہ آپ فوج مخالف بیانیہ اپنائیں ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن جب زرداری صاحب نے فوج کی سیاسی مداخلت پر طنز و تنقید کی اور فوج کے خلاف سخت گیر مؤقف اپنایا تو اس کے بعد نواز شریف صاحب نے نا ان کا فون اٹھایا اور نہ ہی ان سے کوئی ملاقات کی، پیپلزپارٹی کے پاس اس کا بدلہ لینے کا یہ اہم موقع تھا جس سے انہوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔

بلاول بھٹو صاحب نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ جس طرح نواز شریف نے جنرل فیض اور قمر جاوید باجوہ  کا نام لے کر ریاستی اداروں پر براہِ راست چڑھائی کی یہ میاں محمد نواز شریف کا ذاتی بیانیہ ہے ہم اس بیانیہ میں شامل نہیں۔
سیاسی فائدہ بلاول بھٹو صاحب کو یہ ہوا ہے کہ پیپلز پارٹی کے علاوہ تمام اپوزیشن جماعتوں نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف خود کو ایکسپوز کر دیا ہے اور اسٹیبلشمنٹ نے بھی اب یہ طے کر لیا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے جو حد پار کرنی تھی یہ کر چکے اب ان کے ساتھ کوئی مفاہمت نہیں ہو گی، لیکن پیپلز پارٹی کے پاس ابھی بھی اسپیس موجود ہے وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمتی عمل میں مزید بہتری لا سکے۔


ان تینوں جلسوں کے دوران یہ بحث چھڑی رہی کہ کہیں نواز شریف الطاف حسین ٹو تو نہیں بن گئے؟
پی ڈی ایم کے پہلے جلسے کے بعد ایک سیاسی پروگرام میں جب یہی سوال مجھ سے کیا گیا کہ کہیں نواز شریف الطاف حسین ٹو تو نہیں بن گئے تو اس وقت میں نے جواب دیا کہ "فی الحال تو نہیں" لیکن یہ بحث اس وقت اختتام پذیر ہوئی جب مریم نواز نے خود اپنے والد میاں محمد نواز شریف کو الطاف حسین سے منسوب کیا کیونکہ جب عمران خان نے کہا کہ میری پوری کوشش ہو گی کہ نواز شریف کو لندن سے واپس پاکستان لے آؤں تو مریم نواز صاحبہ نے کہا کہ جس طرح تم لوگ الطاف حسین کو واپس نہیں لا پائے اسی طرح نوازشریف کو بھی واپس لانا تمہارے بس کی بات نہیں۔


میں آپ کو بڑے وثوق کے ساتھ یہ کہہ رہا ہوں کہ لندن میں نواز شریف صاحب نے برطانیہ اور امریکہ کی خفیہ ایجنسیز کے افسران کے علاوہ سابق افغان صدر حامد کرزئی سے ملاقات کی ہے اور انہیں یہ کہا ہے کہ آپ جو کہیں میں وہ کرنے کے لئے تیار ہوں بس آپ کسی طرح مجھے اقتدار میں واپس لائیں مزید یہ کہا ہے کہ میں آپ کے لئے عمران خان سے بہتر آپشن ہوں اور میں آپ کی بہتر خدمت کر سکتا ہوں، ان سب باتوں کے بعد یہ کہنا بجا ہو گا کہ میاں نواز خود کو میاں الطاف کے روپ میں ڈھال چکے ہیں، ایاز صادق کا پارٹی پالیسی کے تحت فوج کے خلاف دیے جانے والا بیان اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :