"ناگورنو کاراباخ کی موجودہ صورتحال اور مقبوضہ کشمیر"

ہفتہ 10 اکتوبر 2020

Afzaal Chaudhry Maleera

افضال چوہدری ملیرا

سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد کئی نئی ریاستیں وجود میں آئیں جن میں آرمینیا اور آذربائیجان بھی شامل تھے ان ممالک کے درمیان تنازع نوے کی دہائی میں شروع ہوا جب آرمینیا نے آذربائجان کے علاقے ناگورنو کاراباخ پر قبضہ کیا اور تب سے ناگورنو کاراباخ ایک متنازعہ علاقہ ہے اس علاقہ کی آبادی مسلمان تھی جن پر آرمینین فوج کے شدید تشدد کی وجہ سے بیشتر مقامی لوگوں نے ہجرت کا راستہ اختیار کیا جبکہ ہزاروں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔

چھ ہزار لوگوں کو ایک ہی دن میں ایک ہی محاذ پر شہید کر دیا گیا۔
آرمینیا نے آذربائیجان کے اس علاقے پر ناجائز قبضے کے بعد تاریخی اگدم مسجد کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے اسے جانوروں کے باڑے میں تبدیل کر دیا۔

(جاری ہے)

انٹرنیٹ پر وائرل ہونے والی تصویروں میں مسجد میں سور، گدھے اور دیگر جانور بھی باندھے دیکھے گئے۔ اس علاقے میں مقامی مسلمانوں اور آرمینین فوجیوں کے درمیان وقتاً فوقتاً جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں لیکن اب آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان ایک باقاعدہ جنگ شروع ہو گئی ہے جس کا دائرہ کار ماضی میں ہونے والی چار روزہ جنگ سے بہت زیادہ وسیع ہے۔


اقوام متحدہ کی قراردادیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ناگورنو کاراباخ آذربائیجان کا حصہ ہے اور آرمینیا کی حیثیت ایک قابض فوج کی سی ہے۔
ترکی اور پاکستان نے واضح طور پر یہ کہا ہے کہ ہم ہمیشہ کی طرح آج بھی آذربائیجان کے ساتھ ہیں۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ ہم اپنے آذربائیجانی بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس خطے کے امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ آرمینیا ہے۔

ترکی کے ایف سولہ لڑاکا طیارے بھی دفاعی مشقوں کے لیے آذربائیجان میں موجود تھے جس پر آرمینیا کو بہت زیادہ تشویش تھی آرمینیا کے وزیر دفاع نے ترکی پر یہ الزام بھی لگایا ہے کہ ترکی کے ایف سولہ لڑاکا طیارے نے ان کا ایک جنگی جہاز گرا دیا ہے جبکہ ترکی نے اس بات کی تردید کی ہے اور ترکی کو تردید ہی کرنا چاہیے تھی۔
آذربائیجان کے صدر الہام الئیف نے پاکستانی وفد سے ملاقات کی اور ایک بیان جاری کیا جس کا لبِ لباب یہ ہے...
"اس لمحے ہمارے لئے یہ بہت اہم ہے کہ ہمارے ساتھ کون کھڑا ہے ہم پاکستان سے یہی توقع کرتے تھے اور پاکستان کے ہمارے بھائی ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں اور ہم اسے کبھی نہیں بھولیں گے میرا یہ پیغام اپنی پاکستانی قیادت اور تمام پاکستانیوں کو پہنچائیے"
اور جہاں تک بات ایران کی ہے تو نوے کی دہائی میں آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان ہونے والی جنگ میں روس نے آرمینیا تک ہتھیار پہنچانے کے لیے ایران کا زمینی راستہ استعمال کیا تھا لیکن اب صورت حال مختلف ہے ایران کے لیڈر نے یہ بیان دیا ہے کہ "امید ہے کہ آذربائیجان اپنے علاقے جلد خالی کروا لے گا میری اللہ سے دعا ہے کہ آذربائیجان کو کامیابی عطا فرمائے اور ہمیں کوئی اچھی خبر ملے" اس بیان کی بہت زیادہ اہمیت ہے کیونکہ اس میں ایران کے لیڈر نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایران ماضی کی طرح آذربائیجان کے خلاف نہیں بلکہ اس کے ساتھ کھڑا ہے۔


امریکہ، روس اور فرانس نے اس پر زور دیا ہے کے آذربائیجان اور آرمینیا فوری طور پر غیر مشروط مذاکرات کریں جس پر ردعمل دیتے ہوئے آذربائیجان کے صدر الہام الئیف کا کہنا تھا "ہمارے پاس ایک اور تیس سال نہیں ہیں یہ مسئلہ ابھی حل ہو گا" آذربائیجانی صدر نے آرمینیا کو یہ بات باور کروا دی کہ اب وہ ناگورنو کاراباخ کے مسلمانوں کی آزادی تک رکنے والے نہیں۔

آذربائیجانی صدر نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ غیر مشروط جنگ بندی کو ہم تسلیم نہیں کریں گے، اگر جنگ بندی ہو گی تو پھر اس کے لیے چند شرائط ہوں گے اور جو بین الاقوامی ممالک ثالثی کی پیشکش کر رہے ہیں وہ  باقاعدہ آرمینیا کو ایک ٹائم فریم دیں کہ فلاں دن تک آرمینیا کی فوج ناگورنو کاراباخ کا علاقہ خالی کر دی گئی اور یہ ممالک ہمیں اس بات کی ضمانت دیں۔


ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جانب داری کا ثبوت دیتے ہوئے صرف ان علاقوں کی تصاویر اور ویڈیوز شائع کیں جو آرمینیا کے تھے جبکہ ان علاقوں کو انہوں نے وِزٹ نہیں کیا جو آذربائیجان کے نقصان یا تباہی کی نشاندہی کرتے تھے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے آذربائیجان پر یہ الزام لگایا ہے کہ آذربائیجان آرمینیا کے خلاف کلسٹر بموں کا استعمال کر رہا ہے جو کہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے لیکن اس الزام کی وجہ شاید یہ ہے کہ ابھی حال ہی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے آذربائیجان کے صدر نے ایمنسٹی انٹرنیشنل پر تنقید کی تھی کہ یہ ایک جانبدار ادارہ ہے جس کو آذربائیجان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی نظر نہیں آتی اور اس میں مخصوص مُلکوں کے لئے آواز بلند کی جاتی ہے تو بہت ممکن ہے کہ اس تنقید کی وجہ سے ایمنسٹی انٹرنیشنل آذربائیجان سے خفا ہو۔

لیکن مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ جب امریکہ نے افغانستان اور عراق پر کلسٹر بم پھینکے تو اس وقت ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مزاحمت و مداخلت کیوں نہیں کی، امریکہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت ضرور ہے لیکن بین الاقوامی قوانین سے بالاتر تو نہیں۔
آذربائیجان کے صدر الہام الئیف میں اقوام متحدہ سے مایوس ہوکر یہ شکوہ کیا کہ "اقوام متحدہ کے کچھ فیصلوں یا قراردادوں پر دنوں کے اندر عمل درآمد ہو جاتا ہے لیکن ہمارے کیس میں یہ قراردادیں کئی سالوں سے کاغذ پر ہی موجود ہیں ان پر عمل درآمد نہیں ہوا" اس بیان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آذربائیجان کو اس بات کا علم ہے کہ یہ علاقہ وہ صرف اور صرف اپنے زورِ بازو پر ہی حاصل کر سکتے ہیں اور ناگورنو کاراباخ کو حاصل کرنے کے لیے اقوام متحدہ یا دوسرے بین الاقوامی اداروں کی طرف دیکھنا بے سود ہے جو کہ آذربائیجان تیس سال سے اور پاکستان مقبوضہ کشمیر کے معاملے میں ستر سال سے کر رہا ہے۔


آذربائیجان کے ایک میجر جرنل نہیں یہ کہا ہے کہ "ہماری فوج کا (Victorious Attitude) وکٹوریس ایٹی ٹیوڈ مطلب جیت کا رویہ ہے اور ان کی باڈی لینگویج اس بات کی نشاندہی کر رہی ہے کہ وہ ایک جیتی ہوئی جنگ میں جا رہے ہیں" یہ رویہ فوج کی جیت میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے کیونکہ جب فوجی یہ سوچ کر ہتھیار اٹھاتا ہے کہ میں یہ جنگ جیت رہا ہوں تو اس کے عزم و حوصلے کا معیار بہت بلند ہوتا ہے۔


اور آذر بائیجانی شہریوں کے لیے سب سے خوش آئندہ بات یہ ہے کہ آذربائیجان کی حکومت، اپوزیشن اور میڈیا ریاست اور ریاستی اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں اور ایک ہی پیج پر ہیں۔ اگر ناگورنو کاراباخ کے مسلمانوں کی طرح ہم مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی چاہتے ہیں تو ہمیں بھی اسی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
آذربائیجان نے تیس سال میں اس بات کو بھانپ لیا کہ اگر ہمیں حقیقی معنوں میں اپنے مسلمان بھائیوں کو آزاد کروانا ہے تو ہم یہ صرف اور صرف اپنے زورِ بازو پہ ہی کر سکتے ہیں اور تیس سال تو کیا تیس دہائیاں بھی گزر جائیں تو مذاکرات سے اپنے مسلمان بھائیوں کو آزاد کروانا ناممکن ہے۔


پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کے مسئلہ میں ستر سال سے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا ہوا ہے اور نتیجتاً ہر گزرتے دن کے ساتھ کشمیریوں کی حالت بد تر ہوتی جا رہی ہے اور ان پر ہونے والے تشدد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے
ناگورنو کارباخ کی طرح مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر بھی اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد کروانے میں اقوام متحدہ ناکام رہا ہے۔


پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ اب مذاکرات کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کرے اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لیے ایک جامع حکمت عملی بنائے۔ اس بات کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ بھارت اور پاکستان ایٹمی طاقت ہیں اگر ان کے درمیان جنگ ہوئی تو اس کے نتائج وہ نہیں ہوں گے جو آرمینیا اور آذربائیجان کہ جنگ کے اختتام پر ہوں گے۔ یقینا اگر بھارت اور پاکستان درمیان جنگ ہوئی تو پوری دنیا پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے لیکن ہمیں یہ بات بھی ذہن نشین کرنی چاہیے کہ آزادی قربانیوں سے ہی حاصل ہوتی ہے۔


مقبوضہ کشمیر کو آزاد کروانے کی حکمت عملی میں صحیح وقت کا چناؤ بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ آذربائیجان ایک ایسے وقت میں آرمینیا سے ٹکرایا ہے جب یورپ کرونا وائرس کی ایک نئی لہر میں الجھا ہوا ہے اور امریکہ مقروض ہونے کے ساتھ ساتھ، صدارتی انتخابات کی مہم میں مشغول ہے۔
آذربائیجانی فوج دو درجن سے زائد علاقے فتح کر چکی ہے جن میں فضولی اور جبرائیل کے علاقوں کے علاوہ دیگر علاقے بھی شامل ہیں۔

اور اب آذربائیجان کی فوج تیزی سے آگے کی طرف بڑھ رہی ہے، آذربائیجان کی فوج نے وہ علاقہ بھی فتح کر لیا ہے جہاں پر ان کا قومی ہیرو موبٙارِز ابراہیموف بہادری سے لڑتا ہوا شہید ہوا تھا۔ امید ہے کہ ماضی کی طرح یہ نا مکمل نہیں بلکہ ایک فیصلہ کُن جنگ ہو گی جس کے اختتام پر ناگورنو کاراباخ کے مسلمان ہمیشہ کے لئے آزادی حاصل کر لیں گے۔
لیکن ایک بات تو طے ہے کہ اگر آذربائیجان نے اپنے زورِ بازو پر ناگورنو کاراباخ کا علاقہ آزاد کروا لیا تو آذربائیجان کے علاوہ دیگر مضروب ممالک کا اعتماد بھی بین الاقوامی اداروں سے اُٹھ جائے گا اور ساتھ ہی مجھے اس بات کا خدشہ ہے کہ دنیا کے مضروب ممالک جنگ کو مذاکرات پر فوقیت دیں گے جیسا کہ بین الاقوامی اداروں، لیگ آف نیشنز اور اقوامِ متحدہ سے پہلے ہوتا رہا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :