
بھٹو اور خان میں مماثلت - قسط نمبر 1
منگل 30 مارچ 2021

افضال چوہدری ملیرا
پاکستان کی تاریخ میں ابھی تک دو ہی بار عوام کا خواب حقیقت میں تبدیل ہوا اور ولولہ انگریز شخصیات نے پاکستان کی سیاست میں قدم رکھا جن کے ساتھ عوام کا جم غفیر جذبات کی حد تک جڑ گیا یہ شخصیات ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان نیازی ہیں۔
(جاری ہے)
ان دونوں حکمرانوں میں بہت حد تک مماثلت پائی جاتی ہے دونوں ہی حکمران ایسے وقت پر پاکستان کی سیاست میں ابھرے جب عوام پہلے سے موجود حکمرانوں سے مایوس ہو کر ایک نئے نویلے حکمران کی تلاش میں تھی ان دونوں حکمرانوں کے کچھ مزید نقطے میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں جن سے ان کی مماثلت ثابت ہو۔
دونوں حکمرانوں نے اپوزیشن جماعتوں کے آپس میں اختلافات کے باوجود ان کو اکٹھا کر دیا اور نتیجتاً پاکستان نیشنل الائنس ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ عمران خان کے خلاف بنی جو کہ ابھی تھوڑی بکھر تو گئی ہے پر موجود ہے۔
دونوں ہی یہ سمجھتے کہ لوگ میری وجہ سے میری پارٹی کو جانتے یا دیکھتے ہیں اور ہم فردِ واحد ہی عوام کی توجہ کا مرکز ہیں۔
دونوں کے اپوزیشن لیڈرز پر الزامات تھے جبکہ اس کے برعکس چاہے ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا عمران خان نیازی دونوں حکمرانوں پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں تھا۔
دونوں نے اپنے حواریوں کو اپنے ساتھ رکھا اور باقی پارٹی ممبرز کو دیوار کے ساتھ لگا دیا۔
دونوں پارٹی میں کسی کو جوابدہ نہیں تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ پارٹی میں ساری طاقت کا منبہ ہم ہی ہیں اور اگر ان کے خلاف کوئی بولتا تو اس سے خفا ہو جاتے وہ بات الگ ہے کہ جب جلال الدین رحیم نے طنزً ذوالفقار علی بھٹو کو "لاڑکانہ کا مہاراج" کہا تو انہوں نے اپنے سکیورٹی ہیڈ کو اس کے گھر بھیج کر اس سے مروایا حتی کہ جب اس کا بیٹا سکندر بیچ میں آیا تو اسے بھی مارا پیٹا گیا لیکن اس کے برعکس عمران خان کی اپنی پارٹی ممبرز سے ناراضگی صرف بچوں والی ناراضگی ہے کہ میں نے نہیں بولنا اب آپ سے۔
دونوں حکمرانوں نے ہی اپوزیشن کو کچلنے کی کوشش کی جس کے نتائج اتنے خاطر خواہ نہ ہوئے اور ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی مخالفین نے ایک ڈکٹیٹر کے ساتھ مل کر اسے پھانسی دلوائی، لیکن اس کا سیاسی مخالفین کو سیاسی نقصان یہ ہوا کہ بھٹو آج بھی زندہ ہے۔
اب اگر ہم موجودہ وزیراعظم پاکستان عمران خان صاحب کی بات کریں تو وہ بھی اپوزیشن کے خلاف کڑا ترین احتساب کر رہے ہیں جبکہ اپوزیشن اس احتساب سے جان چھڑوانے میں ابھی تک ناکام رہی ہے اور اگر اپوزیشن احتساب سے جان نہیں چھڑوا پائی تو پھر وہ عمران خان سے جان چھڑوانے کےطرف پیش قدمی کرے گی، اور اگر خدا نخواستہ اپوزیشن کے بڑے برج خلیفہ اپنی جان بچانے کے لئے عمران خان کی جان لیتے ہیں تو یہ ان کی سنگین سیاسی غلطی ہو گی کیونکہ بھٹو کی طرح ایک اور سیاست دان پاکستان کی سیاست میں ہمیشہ زندہ رہے گا اور جب کبھی بھی یہ نعرہ لگایا جائے گا کہ کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے تو اس کے ساتھ یہ نعرہ بھی لگایا جائے گا کہ "کل بھی خان زندہ تھا آج بھی خان زندہ ہے"۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
افضال چوہدری ملیرا کے کالمز
-
مودی، یوگی اور معاشرتی تقسیم
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
فاتح طالبان اور ورطہ حیرت میں ڈوبی دنیا
ہفتہ 21 اگست 2021
-
بھٹو اور خان میں مماثلت - قسط نمبر 2
ہفتہ 3 اپریل 2021
-
بھٹو اور خان میں مماثلت - قسط نمبر 1
منگل 30 مارچ 2021
-
مستقبل قریب میں سُکڑتا بھارت
پیر 1 مارچ 2021
-
پی ڈی ایم میں سیاسی فائدہ و بدلہ اور میاں الطاف
اتوار 8 نومبر 2020
-
"ناگورنو کاراباخ کی موجودہ صورتحال اور مقبوضہ کشمیر"
ہفتہ 10 اکتوبر 2020
-
ہم نے آئی جی بدلنے ہیں پر بزدار نہیں بدلنا
بدھ 9 ستمبر 2020
افضال چوہدری ملیرا کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.