”ڈسکہ سے سینیٹ الیکشن تک “

پیر 8 مارچ 2021

Ahmad Khan Leghari

احمد خان لغاری

ڈسکہ کے ضمنی انتخابات کے دوران امن عامہ کی صورت حال پیش نظر بنا کسی ضروری تحقیقات کے پورے حلقہ میں دوبارہ پولنگ میں حکم دے دیا گیا۔ امید وار نے تقریباً 20پولنگ اسٹیشنوں پر بے قاعدگیوں کی شکایت کی تھی اور ریٹرننگ آفیسر نے بھی 13پولنگ اسٹیشن کے نتائج میں تبدیلی کا یقینی اظہار کیا تھا۔ حیرانی کی بات یہ ہوئی کہ پورے انتخابی حلقے میں دوبارہ انتخاب کرانے کا حک دے دیے گئے۔

الیکشن کمشن کا رویہ اس وقت بھی ” غیر جانبداررانہ“ نظرآیا جب سپریم کورٹ نے سینٹ انتخابات میں صاف شفاف انتخابی عمل کے لیے تمام ذرائع استعمال کرنے کی ہدایت کی لیکن الیکشن کمیشن نے واضع کہہ دیا کہ آئندہ انتخابات میں ایسا کیا جاسکتا ہے اس وقت یہ کاروائی ممکن نظر نہیں آتی ۔

(جاری ہے)

سینٹ کے ووٹ خراب کرنے اور ووٹران کا پیکیج تیار کرنے کی وڈیوز الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر وائرل رہیں تو حکومتی نمائندوں نے الیکشن کمشن سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ سرِ شام الیکشن کرانے والے دفاتر بند تھے اور اسطرح حکومتی نمائندگان کی شنوائی نہ ہوکسی سید یوسف رضا گیلانی کے انتخاب جیتنے کی ہر ممکن کوشش جاری رہی ۔

مقامی سطح پر سند ھ کے وزراء کی آڈیو اور ایتھو پھیا سے بھی وٹس اپ میسج جاری رہے کروڑوں کے پیکیج کی تصاویر، وڈیوز اور میسج چلتے رہے لیکن الیکشن کمشن دفاتر بند کرکے سکون سے گھروں میں جابیٹھے۔ قبل ازیں صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران معززجج صاحبان نے بارھا الیکشن کمشن سے پوچھا کہ آپ شفاف انتخابات کرانے کیلئے کیااقدامات اٹھاتے ہیں۔

اسی طرح دیگر سوالات بھی پوچھے گئے ۔ ایک موقع پر سپریم کورٹ کے عزت مآب جج صاحب نے پوچھا کہ آپ جاگیں گے یا سوتے رہیں گے تو وہ جواب بہت اہم تھا اور ساری کہانی اسی ایک فقرے میں چھپی ہوئی تھی۔ الیکشن کمشن کی طرف سے جواب دیا گیا کہ ”ہمیں سویا ہی رہنے دیں“
قارئین کرام! سید یوسف رضا گیلانی کی جیت کا حقیقی جائزہ لینے کیلئے اوپر بیان کی گئی کہانی کو سامنے رکھنا از حد ضروری ہے ۔

یوسف رضا گیلانی ملتان سے تمام انتخابات میں ھارنے کے بعد اسلا م آباد سے سینٹ کے الیکشن بڑھنے کے زیادہ حق میں نہیں تھے لیکن آصف زرداری کے احسانوں تلے دبے گیلانی سے انکارنہ ہوسکا ۔ آصف زرداری نے انہیں اپنی حکمت علی سے آگاہ کیا اور اسے ہر حال میں کامیابی کی نوید سنائی تو یوسف رضا گیلانی مطمئن ہوئے ۔ آصف زرداری گیلانی کی اخلاقی مدد کیلئے خود بھی اسلام آباد آکر بیٹھ گئے ۔

اہل فکر و نظر ڈسکہ کے ضمنی انتخاب کے موقع پر پورے حلقے کی دوبارہ پولنگ کے فیصلے پر سمجھ چکے تھے کہ اب حالات تبدیل ہورہے ہیں وگرنہ کوئی کچھ کہتا رہے ایسے تمام ادارے حکومتی مشوروں سے ہی چلتے ہیں ۔ یہ اُسوقت تک ساتھ چلتے ہیں اور ساتھ نبھاتے ہیں جب تک دو ایک پیج پر ہوتے ہیں ۔ الیکشن کمشن کی طرف سے دوری کا مطلب بڑا واضع تھا اور حکومتی زعماء اس امر کو ضرور سمجھ چکے ہونگے ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اب تک ہمارے ملک میں ایسے ہی ہوتا رہا ہے اور ایسے ہوتا ہی رہیگا ۔ مقتدرا ادارے اور اپوزیشن ایک پیج پر ہوں تو وہ خوش نہال ہوتے ہیں حکومت کے ساتھ پیج ایک ہوتو خوش قسمتی ہوتی ہے ۔ اپوزیشن کے بیانات ایک ہفتہ قبل تک یہی سنے اور پڑھے گئے کہ ہماری اسٹیشمنٹ نیو ٹرل نظر آرہی ہے ۔ نیوٹرل کا مطلب بڑا واضع ہے ۔ نتائج بھی آپ کے سامنے ہیں سینٹ انتخابات کے بعد مقتدرہ ادارہ کی دو اہم شخصیات نے وزیر اعظم سے ملاقات کی اور درجہ حرارت کو چیک کرنا بھی مقصد ہوگا اور آنکھوں آنکھوں میں وزیر اعظم کو کہا گیا ہے کہ ”ہُن آرام اے“۔


اعتماد کے ووٹ کی کاروائی ہویا قوم سے خطاب اس کا ایک ہی مطلب ہوسکتا ہے کہ انہیں سب کہانی سمجھ آچکی ہے لیکن وہ ایک پیج والوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ انہیں اس طرح نکالنا آسان نہیں ہے اور حکومت سے باہر عمران خان زیادہ خطر ناک ہوسکتا ہے ۔ یہ اہم پیغامات متعلقین تک پہنچ چکے ہونگے۔ مڈ ٹرم انتخابات ہی اس کا نتیجہ نکل سکتا ہے کیونکہ ہمارے مقتدر ادارے بہت گھبرائے ہوئے ہیں ان کیلئے ” نہ جانے ماندن نہ پائے رفشن “ والی صورت حال ہے ۔

مسلم لیگ ن نے اس ادارہ کو جس انداز سے بے توقیر کیا اور آصف زرداری نے ان کا ساتھ دیا اس پر گھبرائے ہوئے چند لوگ اپنے نیوٹرل ہونے کا واضع پیغام پہنچا چکے ہیں کہ عمران خان جانے اور آپ جانیں ہماری طرف سے اب ستے خیراں ۔ چیئرمین سینٹ کا انتخاب ہو یا ڈپٹی چیئرمین سینٹ کا چناؤ ہو عمران خان کیلئے اب غیر ضروری ہیں۔ کیونکہ ایک پیج پر ہونے سے ہی بات بنتی ہے وگرنہ مشکلات اور پریشانیاں یہی مقدر رہتی ہیں۔ ہم تو شروع سے کہہ رہے ہیں ۔
 یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :