مقبو ضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد وطن عزیز کے طول و عر ض میں کشمیر اور اہل کشمیر کے لیے صدا ئیں بلند کی جارہی ہیں ، مو دی کے وار کے بعد عمران کی للکار دنیا کے کانو ں میں گونج رہی ہے ، مان لیجئے کہ بر سوں بعد حکومتی سطح پر کسی حکمران نے کم از کم اہل کشمیر کے حق میں توانا آواز تو بلند کی ہے ، گزری دو دہا ئیوں کے حکمرانوں نے تو کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کے خلاف اپنے لب تک سی رکھے تھے ، پہلی بار حکومتی سطح پر اتنی شدت اور حدت سے کشمیر میں جاری ریاستی ظلم و جبر کے خلاف وطن عزیز کاحاکم صدائے احتجاج بلند کر رہا ہے اور مو دی کی آنکھو ں میں آنکھیں ڈال کر جواب دے رہا ہے ، اس سے قبل تو خانہ پری کے لیے بھی حکومتی سطح پر بیان دینے سے گر یز کیا جاتا رہا ہے نہ صرف حکمرانی سطح پر بلکہ عوامی سطح پر بھی اہل کشمیر کے ساتھ یک جہتی کے اظہار کے لیے ہاتھ پاؤ ں ہلا نے کا عمل جاری ہے ، ملین ڈالرز کا سوال مگر اپنی جگہ مو جود ہے ، کیا زبانی کلا می طر ز کے ” ہا ؤ ہو “ سے کشمیر میں جاری بھا رتی مظالم کو روکنا ممکن ہے ، کیا یک جہتی کے اظہار سے مسئلہ کشمیر کا صائب حل ممکن ہو سکتا ہے ، کیا اہل کشمیر کے حق میں جلسو ں اور جلو سوں کے انعقاد سے اہل کشمیر کے درد کا مداوا ہو سکتا ہے ، تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے ، لگے بہتر سالوں سے ہم اہل کشمیر سے اظہار یک جہتی کے لیے جلسے کر تے چلے آرہے ہیں ، گلے پھاڑ پھا ڑ کر اہل کشمیر کے حق میں نعرے لگا تے رہے ہیں ، کیا ہمارے جلسوں اور نعروں سے بھارت کا بال تک بیکا ہو ا ، کیا ” ہٹو بچو “ قسم کے ہمارے جذباتی ہلچل سے کشمیر کا مسئلہ کسی کنارے لگا ، ظاہر ہے کہ جواب نہیں کے سوا کچھ نہیں ہے ، دراصل ابتداء ہی میں جو کچھ مسئلہ کشمیر کے باب میں بطور ملک ہمیں کر نا چا ہیے تھا بوجوہ وہ ہم کر نے سے قاصر رہے اگر شروعات میں سفارتی سطح پر ہمارے حکمران بھارت کے خلاف سر گر م ہو نے کی زحمت کر تے ، اس اہم تر قصے میں بالخصوص مسلم امہ کو اپنا اہم نوا بنا نے کی سعی کر تے ، اعلی سفارت کا ری کے بل پر بھارت کو کشمیر سے پیچھے دھکیلنے پر مجبور کیا جاسکتا تھا ، ساٹھ کی دہائی سے لے کر اسی کی دہا ئی تک مسلم امہ کے حکمران اس قد کا ٹ کے تھے جو مسئلہ کشمیر کو ” آرپار “ کر نے میں پاکستان کی بھر پور معاونت کر سکتے تھے ، ہوا مگر کیا ،پاکستان کے حکمرانوں نے کبھی مسئلہ کشمیر کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں ، ہمیشہ سے ہمارے ہر دور کے حکمران مسئلہ کشمیرپر ” لفا ظی “ کر کے سمجھتے رہے کہ ہم نے اپنا حق حکمرانی ادا کر دیا ، نو ے کی دہا ئی کے بعد تو ہمارے حکمران ” زبانی بیانی “ زحمت سے بھی تائب نظر آئے ، حکومتی ایوانوں میں اس اہم تر مسئلے پر کشمیر کمیٹی کے نام سے ایک کمیٹی کا بڑا چر چا رہا ، مسئلہ کشمیر کے نام پر قائم اس کمیٹی کے چےئر مین کو ن صاحبان رہے اور اس کمیٹی نے مسئلہ کشمیر کے باب میں کیا خدمات سر انجام دیں ، بو ٹا بو ٹا جا نے ہے جا نے نہ جانے گل ہی نہ جا نے کے مصداق حکمران لاکھ اپنی ناہلی پر پر دے ڈالتے رہیں عوام الناس مگر اس کشمیر کمیٹی کے کا رناموں سے خوب آگا ہ ہیں ، وہ کمیٹی جو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بنا ئی گئی تھی ، محض اپنے احباب کو نوازنے کے لیے استعمال ہو تی رہی ، مسئلہ کشمیر کے ساتھ ہمارے حکمرانوں کے اس کھلواڑ کے نتائج کیا نکلے ، عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر نظر وں سے اوجھل ہو تا چلا گیا ساتھ ہی ہما رامو قف بھی کمزور پڑتا چلا گیا ، وہ ممالک جو مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑ ے تھے ، ہمارے حکمرانوں کی اس مسئلے سے چشم پو شی کو دیکھتے ہو ئے وہ بھی ” ٹھنڈے “ پڑ تے چلے گئے ، دوسری جانب مقبو ضہ کشمیر پر بھارت اپنی ظالمانہ تسلط قائم کر نے کے لیے سر گر داں رہا ، وہ مسئلہ کشمیر جو کبھی اقوام متحدہ کی میز پر اہم تر قضیہ کے طور پر سر فہر ست تھا ، اسلا م آباد کی مدھم سفارت کا ری کے عوض منظر نامہ سے غائب ہوتا چلا گیا ، مو دی کے حالیہ اقدام سے پھر سے تحریک آزادی کشمیر کی صدا کو تقویت مل رہی ہے نہ صرف پاکستان بلکہ کسی حد تک عالمی سطح پر بھی کشمیر کے مسئلے پر آوازیں کا نوں میں پڑ رہی ہیں ، بات مگر وہی پر آکر اٹکتی ہے ، کیا چند دنوں کے گر ج دار بیانات اور جذباتی نعروں سے کشمیر بھارتی تسلط سے آزاد ہو پا ئے گا ؟قطعاً نہیں ، مسئلہ کشمیر کے صائب حل کے لیے حسن تدبر اور اعلی درجے کی حکمت در کار ہے ، سفارتی سطح پر یکسوئی سے کشمیر کے حق میں عالمی برادری کو رام کر نے کے لیے اقدامات وقت کا تقا ضا ہیں، بہتر ین وقت ہے ، اب دوست ممالک کو اپنا ہم نوا بنا یا جا ئے ، عالمی طاقتوں کو بھارتی ظلم کے خلاف اپنے ساتھ ملا یا جا ئے ، جنگ کے سوا مسئلہ کشمیر کا ایک ہی حل ہے کہ اس اہم تر معاملے پر سفارت کاری کے ذریعے بھارت کو شکست سے دوچار کیا جا ئے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔