پتا جو کھڑ کے دل میرا دھڑ کے والی صورت حال ہے ، ہر طرف ہو کا سا عالم ہے ، خوف ہر ذی رو ح میں جا ں گزیں ہے ، انسان انسان کی ” دوا “ ہے ، کو رونا کی آفت نے مگر حضرت انسان کو انسان سے دور رہنے پر مجبور کر رکھا ہے ، کاروبار کو تالے لگ چکے ، انسانی چہل پہل کی رونق مانند پڑ چکی ، حزن وملال کے ان دنوں میں بھی مگر ہمارے انفراد ی اور اجتماعی رویے اور اعمال مادیت کے گر د گھو م رہے ہیں ، ذخیرہ اندوزی ، خود ساختہ گرانی اور ناجائز منافع خوری کا جا دو سر چڑ ھ کر بو ل رہا ہے ،نفسانفسی اور مصیبت کی اس گھڑی میں بھی کیا کیا گل کھلا ئے جا رہے ہیں ، خدا لگتی یہ ہے کہ انتظامی سطح پر اشیا ء خورد ونوش کی طلب و رسد معمول کے مطابق جا ری ہے ، انسان کی زندگی سے لگ کھا نے والی اشیا ء ہر شہر میں وافر مقدار میں مو جود ہیں مگر دکان داروں نے اپنے طور پر زائد منافع خوری کا چلن اپنا رکھا ہے ، سبزیوں سے لے چینی اور آٹے تک پرخوب ہا تھ صاف کیے جا رہے ہیں ، کئی دکا ن دان ایسے ہیں جو حکومت وقت کے مقرر کر دوہ اوقات کے بعد چوری چھپے اپنی دکا نیں کھو لے رکھتے ہیں ، جیسے ہی بازار بند ہو جا تے ہیں ، رو ز مرہ اشیا ء کی قیمتوں میں اضافہ کر دیتے ہیں ، پیسے کی لالچ ہے کہ ختم ہو نے کا نام نہیں لے رہی ، یہی دکا ن دار عوام کو دونوں ہا تھوں سے لو ٹتے بھی ہیں اور ساتھ واعظ بھی کر تے ہیں ، دعا کیجئے کہ رب کر یم اس آفت سے جا ن چھڑا ئے ، ما ن لیتے ہیں کہ کو رونا لاعلا ج ہے ، سوال مگر یہ ہے کیا ہمارے اعمال بھی لا علا ج ہیں ، اسلا م ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ، ہم میں سے ہر ایک نے مگر اپنے لیے اپنا اپنا اسلا م وضع کر رکھا ہے ، کو ئی نما ز پڑ ھ کر یہ سمجھتا ہے کہ اب وہ آزاد ہے جو چا ہے کر ے ، کو ئی حج کر کے خود کو متقی کا درجہ عطا کر دیتا ہے ، اس کے بعد وہ دوسروں کے حقوق کو غصب کر نے کو عار نہیں سمجھتا ، کسی نے اپنے اسلا م کو زکو ہ میں قید کر رکھا ہے ، کو ئی صدقہ دینے کے بعد اپنے ہر غلط فعل کو جائز تصور کرنے لگتا ہے ، گو یا ہر فرد نے اسلام کو اپنے اپنے نظر یات کے تابع کر رکھا ہے ، یعنی اگر آپ نماز پڑ ھتے ہیں تو ذخیرہ اندوزی آپ کے لیے جائز ہے ، اگر کسی نے حج کیا ہے تو اس کے لیے دوسر ے انسانوں کے حقوق کی پامالی حلال ہے ، ہوس کی پیاس ہے کہ کسی صورت بجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی ، حقوق العباد کی ادائیگی کے معاملے میں سچھ پو چھیے تو ہم ” کو رے “ ہیں ، رحم دلی ، دوسروں کے ساتھ انصاف ، خدا خوفی ، ایفا ئے عہد ، بغیر کسی غرض کے دوسروں کے ساتھ بھلائی کے اوصاف قصہ پا رینہ بنتے جا رہے ہیں ، ہمیں ایک ہی فکر دامن گیر ہے ، بس دوسروں کے گلے کا ٹیں ، دوسروں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر اپنی جیبیں بھر یں ، کو ئی مر تا ہے تو ہماری بلا سے سو بار مر ے ، ظلم و زیادتی اور دوسروں کے حقوق کی پامالی ہماری گھٹی میں شامل ہو چکی ، ہم مسلمان ہیں اور اس پر فخر بھی کر تے ہیں مگر ہمارے سارے اعمال رب کریم کے احکامات کے یکسر خلاف ہیں ، دوسری جانب ہم کو رونا جیسی آفت سے نجات کے لیے اذانیں دیتے ہیں ، دعا ئیں کر تے ہیں ، اپنے رب کریم کے آگے طویل سجدے کر تے ہیں ، مگر ہما رے دامن گناہو ں سے داغ دار ہیں ، پھر ہماری نما زیں پڑ ھنے کا کیا فائدہ ، اذانیں دینے سے حالیہ آفت ہمارے سروں سے کیو نکر ٹلے گی ، ہما رے سجدے کیسے اللہ تبارک وتعالی کے ہاں شرف قبولیت حاصل کر سکتے ہیں ، لگے چند سالوں میں ہم کیا سے کیا ہو گئے ، مغرب کی اندھی تقلید میں ہماری بود و باش کیا سے کیا ہو گئی ، تلخ سچ کیا ہے ، ہم نظریاتی اور عملا ً اپنے رب کر یم سے کتنے دور ہو گئے ، کچھ اندازہ مجھے اور آپ کو ہے ، روشن خیالی کی آڑ میں بطور قوم ہر اس امر کو ہم نے اپنی عادت ثانیہ بنا لیا ہے ، جس سے ہمارے جان سے پیارے خالق ومالک اور ہمارے پیارے نبی کریم نے بار بار روکا ہے ، ہر معاملے ہر مسئلے میں اپنے رب سے رجو ع کر نے کے بجا ئے سائنس اور دانش پر ہما را تکیہ کر تے ہیں ، ، ہر نا گہا نی آفت کو ہم سائنس کی ترا زو میں تو لتے رہے ہیں ، ذرا بتلا ئیے کو رونا کے قضیے میں اب سائنس کہاں سات پر دوں میں چھپ گئی ، اب ذرا سائنس اور سائنس کے ” مبلغ “ افلا طون اور ارسطو سامنے آئیں ، چین سے امریکہ تک کو رونا کے آگے بے بسی کی تصویر بنے ہو ئے ہیں ، سچ کیا ہے ، معاملہ ٹونے ٹو ٹکوں سے پار لگنے ولا نہیں ، کو رونا سے امان پانا ہے تو ہمیں دین مبین سے رشتہ جو ڑ نا اور رابطہ مضبوظ کر نا ہو گا ، ہماری فلا ح صرف اور صرف اپنے رب کریم کے قرب کے حصول میں ہے ، جب تلک ہم اپنے خالق اور اس کی مخلوق سے اپنے ” معاملات “ اور معمولات ٹھیک نہیں کر یں گے ، بطور قوم کو ئی نہ کو ئی آفت ہمارا مقدر بنتی رہے گی ، آپ ما نیں یا نہ ما نیں سب بڑا سچ یہی ہے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔