امتحانات سے پاک پاکستان

ہفتہ 9 مئی 2020

Ahmed Khan

احمد خان

کل دلچسپ صورت حال سے واسطہ پڑا ، اپنے دوست کے ساتھ گاڑی میں ایک جگہ سے گزر ہوا ، کیا دیکھتے ہیں کہ دس پندہ بچے نسبتاً جان جثے میں اپنے سے بڑے بچے کی سرکر دگی میں کو رونا زند ہ باد کو رونا زندہ باد کے نعرے لگا تے ہو ئے گلی سے گز ر رہے تھے ہمارے دوست نے گا ڑی روک کر پو چھا ،اے فلک کے تاروں یہ کیا نعرے لگا رہے ہو ، بچوں نے یک زباں ہو کر جواب دیا کہ کو رونا نے ہمیں بغیر امتحان دئیے پا س کردیا ، یہ توبھلا ہو اس محلے کے بزرگوں کا جنہوں نے دروازے کھول کر بچوں سے بز گارنہ ” شفقت “ فر مائی اور بچے نو دو گیارہ ہو گئے ورنہ آج شہر شہر طلبہ کو رونا زندہ باد کے جلو س نکال رہے ہو تے اور ہماری پیاری حکومت کو کو رونا کے ساتھ ساتھ کو رونا کے چاہنے والو ں سے نبر د آزما ہونا پڑ تا۔

۔

(جاری ہے)

۔

 طلبہ میں یہ ابال اٹھا کہا ں سے؟ حکومت وقت کی جانب سے نہم ، دہم ، فسٹ اےئر اور سیکنڈ ائیر کے طلبہ و طالبات کو بغیر امتحان دئیے پاس کر نے کا عندیہ دیا گیا ہے ، جس پر لکھا ئی پڑ ھائی میں قدرے ” ما ٹھے “ طلبہ و طالبات خوشی سے پھو لے نہیں سما رہے، البتہ تعلیمی حلقوں کو حکومت کا یہ ممکنہ فیصلہ ہضم نہیں ہو رہا ۔ ماہرین تعلیم کے مطابق میڑ ک اور انٹر کے نتائج طلبہ و طالبات کی تعلیمی کا میابیوں میں ریڑ ھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ، میڑ ک اور انٹر کے نتائج طلبہ و طالبات کے مقدر کا فیصلہ کر تے ہیں ، انہی نتائج کو مد نظر رکھتے ہو ئے طلبہ و طالبات اپنے اپنے شعبو ں کا تعین کر تے ہیں ، کس نے ڈاکٹر بن کر قوم کی ” خدمت “ کر نی ہے ، کس نے پاک فوج میں کمیشن حاصل کر نے کے لیے تگ و دو کر نی ہے ، گو یا طلبہ و طالبات کی عملی زندگی میں کا مرانیوں کا تمام تر انحصار میٹر ک اور انٹر کے نتائج پر ہوا کرتا ہے ، بر س ہا برس قبل طزاً وطن عزیز کے تعلیمی میعار کے بارے میں کہا جا تا تھا کہ ہمارا تعلیمی نظام صرف کلرک پیدا کر تا ہے ، لگے دو دہا ئیوں میں حکمرانوں نے تعلیم کا بیڑا اس حد تک غرق کر دیا ہے کہ اب ہمارا نظام حکومتوں کی الم غلم پا لیسیوں کی وجہ سے ” خواندہ “ فر د پیدا کر نے سے بھی قاصر ہوتا جا رہا ہے، فیل پاس کے بنیادی اصول سے انحراف کے بعد ہمارا تعلیمی نظام پہلے ہی زبوں حالی کے آخری درجے پر ہے ، حکومت وقت اگر بغیر امتحان طلبہ و طالبات کو پاس کر نے کے فیصلے پر قائم رہتی ہے اس سے نظام تعلیم مزید پستی کا شکار ہو جا ئے گا ، کو روناسے بچا ؤ کے احتیاطی تدابیر اور سماجی فاصلے کو قائم رکھتے ہو ئے امتحانات کا انعقاد با آسانی کیاجا سکتا ہے ، ایک طر ح سے ان خاص حالات میں ہمیں فیصلے بھی خاص طر ز کے کر نے ہو ں گے ، پند رہ جو لا ئی تک سکولو ں کی چھٹیا ں ہیں سو سرکار کے بے شمار پرا ئمر ی ، مڈل اور ہا ئی سکول خالی پڑ ے ہیں اگر تعلیمی بو رڈ ز سماجی فاصلے کو مد نظر رکھتے ہو ئے تمام پرا ئمری ، مڈل اور ہا ئی سکولوں کو سنٹر ز میں تبدیل کر دے اور اساتذہ کو امتحان لینے پر مامور کر دے تو با آسانی تمام امتحانات کا انعقاد ہو سکتا ہے ، یکم جو ن سے پند رہ جو لا ئی تک اس خاص ” مشق “ کے ذریعے بو رڈ کے تمام جما عتوں کے امتحانات ممکن ہو سکتے ہیں ، کو رونا کو جواز بنا کر اہم تر جماعتوں کے طلبہ و طالبات کو اگلے تعلیمی درجوں میں تعلیمی تر قی دینا ذہین و فطین طلبہ و طالبات کے ساتھ زیادتی ہے ، پڑ ھاکو قسم کے طلبہ و طالبات حکومت وقت کے اس #فیصلے پر سخت تشویش کا اظہار کر رہے ہیں ، بہر طور خاطر جمع رکھیے ، وفاق میں تعلیم کا قلم دان جناب شفقت محمود کے پاس ہے، مو صوف نہ صرف خود اعلی تعلیم یا فتہ ہیں بلکہ شعور کے ہنر سے بھی لیس ہیں اور زمینی حقا ئق کا بھی انہیں خوب ادارک حاصل ہے ، کچھ ایسا ہی معاملہ پنجاب اور سندھ کے تعلیم کے وزراء کا ہے ، پنجاب کے صوبائی وزیر تعلیم مراد راس صاحب خود بھی اعلی تعلیم یافتہ ہیں ساتھ اعلی درجے کے متحرک بھی وزیر ہیں ، تعلیم کے معاملات سے اچھی خاصی شد بد رکھتے ہیں ،کچھ ایسا ہی معاملہ سندھ کے وزیر تعلیم کا بھی ہے ، گہر ے سو چ و بچا ر کے بعد فیصلے کی خو بو ان میں بھی پا ئی جاتی ہے ، قوی امکان یہی ہے کہ آنے والے دنوں میں جناب شفقت محمود ، جناب مراد راس اور سندھ کے وزیر تعلیم آپس میں سر جو ڑ کر اس اہم تر تعلیمی قضیے کا صائب حل نکال لیں گے اور ذہین و فطین طلبہ و طالبات کے ساتھ زیادتی نہیں ہو نے دیں گے ،کو رونا سے کب ہماری جاں خلاصی ہو گی یہ کسی کو بھی معلوم نہیں لہذا اب ہمیں کو رونا کے ساتھ جینے کی ادا اپنا نی ہو گی ، کو رونا سے بچا ؤ بھی کر نا ہو گا اور دنیا کے معاملات کو بھی احسن طریقے سے چلا نے کی راہ اپنا نی ہو گی ، کو رونا سے بچا ؤ کر تے کر تے ملکی سطح پر کہیں ہم ایسے فیصلے نہ کر لیں جن کی وجہ سے کل کلا ں اجتماعی طور پر ہمیں پر یشا نیوں کا سامنا کر نا پڑ ے ،دیکھیے مر کز اور صوبوں کی حکومتیں اس اہم تر معاملے کو کس طر ح سے سلجھا تی ہیں ، دو چار دنوں میں سب عیاں ہو جا ئے گا ۔

 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :