”رہے نام اللہ کا“

جمعہ 24 جولائی 2020

Ahmed Khan

احمد خان

قدرت اللہ شہا ب کا نام سنا ہو گا، نہیں سنا ، چلیں طارق عزیز کو تو جا نتے ہو ں گے اپنے والے طارق عز یز نہیں مشرف والے طارق عزیز مشرف عہد میں جو مانندآب پیکاں تھے ، بڑے بڑے سیاست داں جن کے اشارہ آبرو سے ادھر سے ادھر ہو جایا کر تے تھے ، صدر ہا ؤس میں جن کی مر ضی چلا کر تی تھی ، ذرا بتلا ئیے اب کہاں ہے ، کتنے اختیار کے مالک ہیں ، فواد حسن فواد کے اسم گرامی سے تو لازماًواقف ہو ں گے ابھی کل کی بات ہے بڑے میاں صاحب کے خاص افسر اعلی رہے کئی یار بیلی تو انہیں حقیقی وزیر اعظم تک قرار دیتے تھے ، دروغ بہ گردن راوی آج کل ہر سو اعظم خان کے اختیار کا سورج سوانیز ے پر بیاں کیا جا تا ہے ، کیسے کیسے دبنگ افسر گزرے اپنے اپنے ” اوصاف حمیدہ “ کی وجہ سے چہار سو جن کا ڈنکابجا کر تا تھا، آج مگر ان کا کو ئی نام لیوا تک نہیں ، کارزار سیاست کی طرف آجا ئیے ، حضرت قائد اعظم کے بعد سیاسی افق پر کیسے کیسے سیاسی ستارے چمکے اور پھر غروب ہو ئے ، لیاقت علی خان ، ایوب خان ، رعب اور کروفر کی چلتی پھر تی تصویر گورنر امیر محمد خان #سیاست کو نئی جہت سے روشنا س کرانے والے ذوالفقار اعلی بھٹو ، کو ئی مانے یا نہ مانے سیاست میں عام آدمی کو ” سیاسی انا“ کی دولت سے نوازنے والے ذوالفقار علی بھٹو تھے نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ اقوام عالم میں ان کا ایک نام تھا ، ضیاالحق طویل عر صے تک کو چہ اقتدار کے مکین رہے آج مگر نئی نسل کو شاید ان کا نام تک یاد نہیں ، بیسیوں ایسے نام گنوائے جاسکتے ہیں ، کتنے نام ور وزیر مشیر اور افسران تھے اپنے اپنے دور میں جن کی منشا کے بغیر کو ئی ” پتا “ ادھر سے ادھر نہیں ہواکرتا تھا وہ تمام نام ور اور جا ہ و جلا ل کے مالک آج کہاں ہیں ، بات در اصل ہے کیا ، اختیار اور اقتدار طاقت کا سر چشمہ نہیں ، اختیار کا ڈنڈا دو سالہ بچے کو پکڑا دیجیے ایک عالم اس دوسالہ بچے کی جی حضوری کر ے گا، اقتدار ایک ناتواں کے حوالے کر دیجیے ، رعایا اس کے آگے سر تسلیم خم کر دے گی ، اصل بات کر دار کی ہے اصل قصہ بھلا ئی کا ہے ، آپ حکمران رہے اپنے دور حکمرانی میں مخلوق خدا کے لیے آپ نے کیا کیا ، کتنوں کا آپ کی ذات اور ” ہاتھ “ کی وجہ سے بھلا ہوا ، خلق خدا کے لیے آپ کتنا ” نو شیروان “ بنے رہے، مخلوق خدا کے لے آپ دل میں کتنی تڑپ تھی، آپ وزیر تھے یا مشیر تھے آپ کی وجہ سے کتنوں کو آسانیاں نصیب ہو ئیں ، بات صرف حکمران اور افسر شاہی تک محدود نہیں ، آ پ جہاں پر بھی فرائض سر انجام دے رہے ہیں ، آپ کاکردار اہم تر ہے ، بھلے آپ دکان دار ہیں دربان ہیں قاصد ہیں کلرک ہیں استاد ہیں اسسٹنٹ کمشنر ہیں ڈپٹی کمشنر ہیں یا اس سے بھی بڑے عہدے پر خدمات سر انجام دے رہے ہیں ، اگر آپ دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کر تے رہے ، لا چاروں کے ساتھ اچھا بر تاؤ کر تے رہے ، بے کسوں کی دست گیر ی کر تے رہے ، آپ چلے جا ئیں گے مگر آپ کی نیکی کی ” مٹھا س “ آپ کا پیچھا کرتی رہے گی ، خلق خدا جھو لی بھر بھر کر دعائیں آپ کے نام کر تی رہے گی ، اس کے بر عکس اگر دوسروں کے لیے آ پ ” قہر “ بنے رہے اپنے اختیار کو آپ نے قہر کا ذریعہ بنا ئے رکھاپھر آپ کی رخصتی کے دن کو خلق خدا ” یوم نجات “ کے طور پر منا ئے گی گویا سارے کا سارا معاملہ آپ کے اپنے ہا تھ میں ہے آپ اپنے لیے یوم نجات کا انتخاب کر تے ہیں یا یوم دعا کا ، ایک بات مگر ذہن نشین کر لیجیے ، بڑے بڑے شاہ سوار آئے ،بڑے بڑے تکبر اور کروفر والے آئے جن کے نام سے ایک جہاں کانپ اٹھتا تھا مگر آج وہ کہاں ہے کس نگری میں ان کا بسیرا ہے کہاں گیا ان کا کروفر کہاں گئی ان کی فر عونیت کہاں گیا ان کا اقتدار کہاں گیا ان کا اختیار ، ایک بات پلے سے باندھ لیجیے چاہے آپ ملن سار ہیں یا اکڑ فوں کے خوگر ، ایک دن آپ نے ” فقیری “ کی چادر ہرصورت اوڑھنی ہی ہے ،آپ کے ہاں اقتدار اور اختیار بس چند دنوں کامہماں ہے آج نہیں توکل خاص سے عام بننا ہر انسان کا مقدر ہے ، کما ل صرف اور صرف رب کریم کی ذات پاک کو حاصل ہے ، جلال صرف رب کر یم کی ذات پاک کی صفت ہے ، دوام صرف رب کا ئنات کو حاصل ہے ، ہمیشہ رہنے والی ذات پاک صرف رب کریم کی ہے ، ہر ذی روح کا مقدر ایک نہ ایک دن زوال ہے سو اپنے اختیار اور اقتدار کو دوسروں کے بھلے کے لیے استعمال کر نے کا ہنر اپنا ئیے ، اسی میں آپ کا بھلا ہے ،ہاں اگر سرراہے جناب خان پنجاب کے عثمان بزدار سندھ کے مراد علی شاہ خیبر پختون خوا ہ کے محمود خان اور بلو چستان کے جام کمال سے مڈ بھیڑ ہو انہیں بتلا دیجیے کہ خلق خدا کے بھلے میں حاکم کا بھلا ہو اکر تاہے ، کو چہ اقتدار میں بہت سو ں نے ڈیرے ڈالے رکھے آخر کار کو ئی ” معافی دے بابا “ کے ذریعے رخصت ہو ا کسی کا مقدر پھا نسی بنی کو ئی جہاز کے حادثے میں اقتدار سے گیا ، کسی کی رخصتی کا بہانہ پانامہ بنا ، مخلوق خدا بس اس حاکم کو یاد رکھتی ہے جو خدائی مخلوق کے ساتھ بھلا کر کے جاتا ہے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :