”ما تھے پر بل کیوں“

بدھ 5 اگست 2020

Ahmed Khan

احمد خان

تحریک انصاف کے ایوانو ں میں بیٹھے مہر باں اور تحریک انصاف سے جڑ ے قد ر داں برا بر شکو ہ کنا ں ہیں کہ ذرائع ابلاغ انصافین حکومت کے ساتھ ” انصاف “ نہیں کر رہا ، دوسرے الفاظ میں کہہ لیجیے کہ ذرائع ابلاغ جناب خان کی پالیسیوں پر ناقد کا کردار ادا کر رہا ہے ، تحریک انصاف کے احباب بھول رہے ہیں کہ جو جماعت اقتدار کے نشے کا لطف لیتی ہے عوام سوال بھی اسی سے کرتی ہے عوام کے لبوں سے نکلی توصیف یا تنقید بھی اسی جماعت کے پلڑے میں جاتی ہے ،حضور جب عوام کے حقوق کی پاسبانی کا بیڑا اٹھا یا ہے پھر سوال بھی ہو ں گے اور شافعی قسم کے جواب بھی عوام کو دینا ہو ں گے، کو ن کہتا ہے اقتدار پھو لوں کی سیج ہے عوام کی خدمت کا جذبہ اگر دل میں جا گزیں ہو پھر کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے اقتدار ایک کڑے امتحاں سے کم نہیں، تحریک انصاف کے احباب کو شاید یاد نہیں ، تحریک انصاف ذرائع ابلاغ کی ” محبوبہ “ تھی ، مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی روایتی سیاست ، دوستانہ کشتی اور باریوں سے عوام بے زاری کی حد تک تنگ آچکی تھی جیسے ہی تحریک انصاف نے ” جان “ پکڑ ی عوام اور ذرا ئع ابلاغ دونوں نے تحریک انصاف اور جناب خان پر اپنی محبتیں اور عنایتیں نچھا ورکر نی شروع کر دیں ، جناب خان اور ان کے رفقا ء کو ذرائع ابلاغ نے ” فر ض عین “‘ کے طور پر جگہ دی ، طباعتی صحافت میں جناب خان کی شہ سر خیاں” جمنا “ معمول کی بات تھی جناب خان کے طرز سیاست پر فیچر چھپتے ، اداریہ ان کے بیانوں اور تقا ریر کا نچوڑ ہوا کر تا ، کالم نویس تحریک انصاف کی مثالی سیاست اور مثالی طر ز حکومت کی ” آمد “ پر صفحے کا لے کر تے ، تحریک انصاف گویاایک امید ایک آس ایک امنگ ایک ترنگ ایک آرزو ایک تمنا ایک سپنا ایک خواب کا نام بن گیا تھا ، بچے جنہیں سیاست کی الف ب سے آگہی نہ تھی یہ معصوم مخلوق اچھی بھلی ” سیاسی “ ہو گئی ، 2013ء اور 2018ء کے عام انتخابات میں گلی کو چوں میں بچہ پارٹی از خود جلسوں جلو سوں کا انعقاد کرتی ، دیکھو دیکھو کو ن آیا جب آئے گا عمران خان نے تو گو یا عوامی ترانے کی جگہ لے لی تھی ، نوجوان تحریک انصاف اور جناب کی اقبال بلندی کے لیے کٹ مر نے کے لیے تیار تھے ، لگے عام انتخابات میں تو تحریک انصاف سے محبت بچوں ، نوجوانوں اور بڑے بوڑھوں میں خون کی طر ح دوڑ رہی تھی ، بچے کپتان کے دیوانے تھے ، تحریک انصاف جوانوں کی ” ضد “ اور تحریک انصاف بزرگوں کے چہروں کی ” امید “ تھی ،محض اس بنا پر کہ جناب خان عوامی حقوق کے داعی بن پر ابھر ے تھے ، حکومت میں آکر گرانی کو زمیں بوس کر دیں گے یہ قول زریں کس کا تھا ، بے روز گاروں کو روز گار کی فراہمی اولین ترجیح ہو گی یہ قرار کس کا تھا ، عوام کو تیز تر انصاف کی فراہمی یقینی بنا ئیں گے یہ فر مان کس کا تھا ، ذرا یاد کیجیے عوام کے ساتھ کیا کیا وعدے کیے گئے تھے ، عوام کو کو ن کو ن سے حسین سپنے دکھا ئے گئے تھے ، حکومت میں آنے کے بعد مگر تحریک انصاف کے مہر بان اور قدر دان اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتلا ئیں ، انصافین حکومت عوام سے کیے گئے لا تعداد وعدوں میں سے کو ن ساوعدہ ایفا کر سکی ، عوام کی زند گیوں پر براہ راست اثر انداز ہو نے والی کس ” سماجی سر طان “ کا علا ج ہوا ، ذرا بتلا ئیے بڑھتی اور مزید بڑ ھتی گرانی کے حق میں کیسے قلم کی سیاہی خشک کی جاسکتی ہے ، تیل مصنوعات کی بلند و بالا قیمتوں کو کیسے حکومت وقت کی درست راگنی قرار دیا جاسکتا ہے ، سونے کی بڑھتی قیمتوں کو بھلا کیسے حکومت وقت کا صائب قدم قرار دیا جاسکتا ہے ، لا قانونیت کے بڑھتے واقعات پر ذرائع ابلاغ کیسے ” گونگے “کا کر دار ادا کر سکتے ہیں، روز گار کی تالہ بندی پر کیسے ” بہرے “ کی ادا کاری کی جاسکتی ہے ، آٹے اور چینی کی ہوش ربا قیمتوں پر کیسے حکومت وقت کے حق میں دلیلیں دی جاسکتی ہیں ، سیاسی افراتفری اور بے سروپا حکومتی پالیسیوں کو کس طرح سے حکمت کے مرتبان میں بند کیا جاسکتا ہے ، عوامی خدمت کے باب میں آٹے میں نمک کے مقدار کے برابر ہی سہی کچھ تو کر کے دکھلا ئیے ، عوام کی زندگیوں سے لگ کھا نے والاکو ئی ایک مسئلہ تو سلجھا ئیے ، چلیے سارے نہ سہی کسی ایک طبقے کے کسی ایک اجتماعی دکھ کا مداوا کر لیجیے ، کچھ تو قصیدے کا بہانہ بنے کچھ تو تعریف کا وسیلہ بنے ، دو سال سے زائد کے عر صے میں عوام سے براہ راست تعلق رکھنے والے مگر ایک بھی معاملے پر انصافین حکومت کچھ کر دکھا نے میں کامرانی سے کو سوں دور ہے ، حکومتی پا لیسیوں کے ہاتھو ں عام آدمی کی زند گی اجیر ن ہو چکی ، سفید پوش خود کشیاں کر رہے ہیں ،جب چہار سو حکومت وقت کے خلاف عوامی سطح پر ایک اکتاہٹ کا ما حول ہو بھلا پھر کیسے ذرائع ابلاغ حکومت وقت کی شان میں قصید ے بیاں کر ے ، ماتھے پر بل ڈالنے سے بات نہیں بنے گی عوام کے لیے آسانیا ں پیدا کر نے سے بات بنے گی سو عوام کے مفادات پر قدغن لگا نے کے بجا ئے عوا م کی خدمت کو اپنی حکومت کا منشور بنا ئیے ، دیکھ لیجیے پھر کیسے عوام اور ذرائع ابلاغ حکومت پر صدقے واری ہو تے ہیں۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :