” مالی داکم پانی دینا ، بھر بھر مشکاں پاوے “

جمعہ 26 فروری 2021

Ahmed Khan

احمد خان

خبر ہے کہ کو سوں دورملک میں ایک خوش گلو نے حاکم وقت کی شان میں ”گستاخی کر دی ظاہر ہے خوش گلو کی یہ ”گستاخی“ حاکم وقت کے برداشت سے باہر تھی ، حاکم وقت کا جلال حرکت میں آیا اورو ہاں کی پو لیس نے حاکم وقت کی شان میں گستاخی کی جرات رندانہ دکھا نے والے خوش آواز کو پابند سلا سل کرلیا ، جیسے ہی یہ خبر آگ کی طر ح پھیلی اس ملک کے باسی پو لیس سے بھڑ گئے ، پتے کی بات اس میں کیا ہے ، یہ کہ زندہ اور شعور کی وصف سے لیس قومیں ہمیشہ سچ کے ساتھ کھڑی ہو تی ہیں ، زندہ قومیں ہمیشہ اپنے مفاد پر کڑا پہرہ دیا کر تی ہیں ، زندہ قومیں اپنے حقوق اور ظلم کے خلاف سیسہ پلا ئی دیوار بن جا یا کرتی ہیں ، لگے دنوں واپڈا کے ملا زمین نے واپڈا کی نج کاری سے حکومت کو پسپا کرنے کے لیے اسلام آباد میں دھر نا دیا ایک عر صے سے حاکم طبقہ واپڈا کو نجی ہا تھوں میں دینے کے لیے پر تولے بیٹھا ہے ، عین اسی طر ح کا معاملہ گیس کابھی چل رہا ہے ، صحت اور تعلیم سے جاں خلاصی کے لیے بھی سرکار کے ” فن کار “ الگ سے ہاتھ پا ؤں چلا رہے ہیں ، واپڈا سے جا ن چھڑا نے کا سیدھے سبھا ؤ مطلب کیا ہے ، واپڈا کو نجی ہاتھوں میں دینے کے بعد عوام جا نے اور ساہو کار جا نے ، ساہو کار چاہے تو ہزار روپے کی یونٹ خلق خدا پر بیچے حکومت کو اس سے کو ئی سرو کار نہیں ہو گا ، اسی تناظر میں سو ئی گیس کو بھی تول لیجیے ، صحت عامہ کو بھی کامل طور پر ”نرم دلوں “ کے رحم وکرم پر چھوڑ دینے کے بعد لا چار نزلہ زکام کے علا ج سے بھی رہ جا ئیں گے ، تعلیم کا حال بھی کم وپیش ایسا بنا دیا گیا ، تعلیم کے شعبے میں نجی ہاتھوں کی حوصلہ افزائی اور پشت پنا ہی کے بعد اریب قریب حکومت کا تعلیم سب کے لیے کا نعرہ منوں مٹی دفن ہوچکا ، ثانویں درجے کے بعد اب متوسط طبقے کے لیے اپنے روشن دماغوں کو اعلی تعلیم دلوانا ناممکن ہوچکا ، حکومت کی ” ہلا شیری “ کی وجہ سے اعلی درس گاہیں اب تعلیم کے بجا ئے کا روبار کی جا بن چکیں ، اپنے جگر گو شوں کو ڈاکٹرانجینئر بنا نا تودرکنار اب تو والدین کے لیے اپنے نور چشم کو ” سیدھی سادی “ تعلیم دلو انا بھی لگ بھگ ناممکنات بن گیا ، ہما رے ہاں عام رویہ کیا ہے واپڈا ملا زمین اگر اپنے ادارے کی نج کاری کے خلاف سڑ کوں پر نکلتے ہیں عوام اسے واپڈا کا سر اور واپڈا کی ٹوپی قرار دے کر لا تعلق ہو جا تے ہیں ، صحت عامہ تعلیم اور گیس کے شعبوں سے جڑے ملا زمین اگر ان اداروں کی نج کاری کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں بطور قوم اسے بھی ان اداروں کے ملا زمین کا درد سر سمجھ کر ہم لا تعلق ہو جا تے ہیں گویا اہم تر اداروں کی بولیاں لگ رہی ہیں اور قوم کنارے کھڑ ے تما شا دیکھ رہی ہے اگر حکمران عوام کے مفاد سے براہ راست جڑے اداروں سے جان چھڑا لیتی ہے اس کے بعد کیا ہو گا ایک ایسی قوم جسے دو وقت کی روٹی کی” عیاشی “ ڈھنگ سے نصیب نہیں ، کیا وہ قوم بجلی کے بھاری بھر کم بل ادا کر سکے گی ، صحت عامہ کے شعبے کو نجی ہاتھوں میں دھکیلنے کے بعد کیا عام آدمی نزلہ زکام جیسی عام سی بیماری کا علاج کر سکے گا ، تعلیم کو ” بھا ؤ تاؤ “ کی قدر سے آشنا کر نے کے بعد کیا عام آدمی اپنی اولاد کو ثانوی درجے تک تعلیم دلا سکے گا ،بہت سے ذہنو ں میں کئی سوال کلبلا رہے ہیں ، مثلا ً واپڈا اب بھی عوام کی کھال اتار رہا ہے ، عام آدمی کے ساتھ واپڈا کا سلوک راست نہیں اسی طرح کے سوالات اور شکا یات گیس صحت اور تعلیم کے شعبوں کے بارے میں بھی عوامی زبانوں پر مچل رہے ہوتے ہیں ، اس کا ” شافعی علا ج “ کھلا ؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی نظر سے میں مضمر ہے ، اداروں کے اصل مالک عوام ہوتے ہیں ، جو ادارہ اپنے فرائض صائب طور پر ادا نہیں کرتا اس کی نشان دہی کیجیے اس ادارے کے ناروا سلوک کے خلاف مقتدر ایوانوں تک اپنی آواز پہنچا ئیے اس ادارے کا قبلہ درست کر نے کے لیے اپنی توانائی صرف کیجیے ، بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ عوام اپنے حقوق کے لیے تن من دھن داؤ پر لگا دیں اور کو ئی مائی کا لعل عوام کے حقوق غصب کر سکے ، اداروں کا بنیادی فر ض عوام کی خدمت ہے جو ادارے عوام کی خدمت میں کو تائی برتیں ان اداروں کا قبلہ درست کر نا عوام کا فر ض ہے ، شعور کا تقاضامگر یہ نہیں کہ جو ادارہ عوام کی خدمت میں کو تاہی کرے عوام کے مفاد کے حامل ادارے کے بارے میں عوام چپ سادھ لیں دراصل عوام کی ” چپ “ ہی حکمرانی سطح پر عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والوں کو ” شیر “ بنا تے ہیں سو اپنے ماں جیسے اداروں کے محافظ بنیں ورنہ نجی ہاتھوں میں جا نے کے بعد یہ ادارے آپ کی رہی سہی کھال بھی اتارنے سے دریغ نہیں کر یں گے ، یقین نہ آئے تو ریلوے کو دیکھ لیجیے جن روٹ پر مسافر گاڑیوں کو نجی ہاتھوں کے حوالے کیا گیا سرکار کے زیر سایہ ان روٹوں پر کیا کر ایہ تھا اور اب نجی ہاتھ ان روٹوں پر کتنا کرایہ وصول کر رہے ہیں ، اداروں کی بقا میں باشعور قوموں کی فلاح ہوا کرتی ہے اپنے اداروں کی حفاظت کرنا سیکھیں البتہ جہاں کہیں آپ کے ادارے غفلت کے مر تکب ہو ں وہاں ان کے ” کان “ ضرور کھینچیں اگر عزت سے جینے کی تمنا ہے پھر اپنے حقوق کو جاننے سمجھنے اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کر نے کا سلیقہ اپنا ئیے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :