”قصہ کچھ یوں ہے“

منگل 18 مئی 2021

Ahmed Khan

احمد خان

نظام کے ناکارہ پن بلکہ بر بادی کا چر چا ہر سو ہے رائج نظام میں ایسے کیا نقائص ہیں رائج نظام میں ایسے کون سے جھو ل ہیں جن کی وجہ سے مو جودہ نظام سے عام آدمی کا اعتبار کا مل طور پر اٹھ چکا ، ما ضی کے جھر وکوں میں جھا نک لیجیے اس وقت بھی یہی نظام تھا نظام سے جڑے سر کار کے یہی ” پیا دے “ تھے طوعاً کر ھاً ہی سہی مگر ماضی میں بھلے مانسوں کی اشک شو ئی کا ساماں کسی نہ کسی طور ہو ہی جاتا تھا ، اس وقت کے اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے پاس سر کار کی عام سی گاڑیاں ہوا کر تی تھیں انتظامی عہد وں پر تعینات ان افسران کی تنخواہیں اور مراعات قدرے کم تھیں دیگر محکموں کے افسران کے پاس سہو لیات اور مراعات کی نوازشات بس منا سب ہوا کر تی تھیں ، سرکار کے چنیدہ افسران کو سرکار کی جس سواری بادبہا ری کی عیاشی میسر تھی وہ پو ٹھو ہار جیپ ہوا کرتی تھی مگر انتظامی سطح پر کچھو ے کے رفتار سے ہی سہی عوام سے لگ کھا نے والے معاملات حل ہو جایا کرتے تھے لگے چند سالوں میں ملکی نظام سے جڑے قوم کے ” مکھن “ گر دانے جانے والے افسران پر سرکاری سہو لیات کی گویا بارش کر دی گئی ضلعی سطح پر امور کے ذمہ دار افسران کے پاس عالی شان گاڑیوں کا جمعہ بازار لگا دیا گیا ، اسسٹنٹ کمشنر ڈپٹی کمشنر سطح کے افسران کے پاس سرکار کی عنایت کر دہ لش پش کرتی گاڑیاں دیکھ لیں پھر ان کے ساتھ ” ہٹو پچو “ کا جلوس دیکھ کر تو عام آدمی حیرانی سے سانس لینا بھول جاتا ہے کہ غریب ملک کے افسران کا چا ل چلن ایسا ہے ، ضلع سے ڈویثزن اور پھر صوبے کی سطح پر افسر شاہی کی سہو لیات کی ایک طویل بلکہ نا ختم ہو نے والی فہر ست ہے ، لمحہ موجود میں نظام کے کر م فر ما ؤں پر نظر ڈال لیجیے ، پر کشش تنخواہ بلامبالغہ لا کھوں کی آسائش سے مزین گاڑیاں مراعات کا دم چھلا سرکار کی سواری سرکار کا ” تیل “ مگر اس کے باوجودسفر کے مد میں الگ سے خزانے سے ادائیگی، بہت سے احباب شاید لا علم ہوں وطن عزیز کی افسر شاہی سفر کے مد میں ماہانہ اربوں روپے اپنی جیبوں میں منتقل کرتی ہے ، سفر کے بعد مر حلہ آتا ہے دفاتر کے آرائش و زیبائش کا ، عام طور پر ہر سال اوپر سے لے کر” بہت اوپر “تک سرکار کی کرسی پر تشریف فرما صاحبان اپنے دفاتر پر ” آرائش “ کے مد میں ہر سال خرچ کر تے ہیں اور خوب کرتے ہیں اگر دفاتر کی آرائش و زیبائش اور سفر کے مد میں ” وصولی“ کے اخراجات کا کھا تہ جانچا جا ئے یقین کیجیے عالمی مالیاتی ادارے کی قرض جتنی قسط ان اللوں تللوں میں ہر سال اڑا ئی جاتی ہے اوپر کے سطور میں ان ” شریفانہ اخراجات کا تذکرہ کالم کے دامن کی تنگی کو مدنظر رکھتے ہو ئے سطحی طور پر کیا گیا سرکار کے ” مکھن “ اپنے ہاتھ پا ؤں کو ” زحمت “ دے کر جو کما تے ہیں سرکاری خزانے کو لگنے والے اس ” چونے “ کا شمار کم از کم ” اعداد و شمار “ میں ممکن نہیں نسبتاً متوسط طبقے سے آکر سرکار کے عہدوں پر براجمان ہو نے والے چند سالوں میں ہزاروں سے کروڑوں کے مالک یک دم کیسے بن جاتے ہیں ، پرکشش عہدوں پر براجمان پردہ نشینوں کو چھو ڑ دیجیے کبھی سرکار کے زرخیز شعبوں اور محکموں کے نچلے گریڈوں میں امور نمٹانے والوں کی جیبوں کی تلاشی لے لیں جن کی تنخواہ بظاہر ہزاروں میں ہے مگر ان کے گھریلو اخراجات لا کھوں میں ہیں ماہانہ ہزا روں لینے والوں کے پاس چم چم کرتی گاڑیاں کہاں سے اور کیسے آئیں ، سرکار کے ان ” وظیفہ خواروں “ کے بچے مہنگے ترین درس گاہوں میں کیسے زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں پوش علا قوں میں بڑے بڑے گھر کن پیسوں سے بنائے گئے ہیں ذرا سی جستجو کے بعد معلوم ہو جا ئے گا ، اصل مد عا کی جانب روح سخن مو ڑتے ہیں نظام کی شطرنج کا ہر مہرہ جب اپنی جگہ موجودہے اس کے باوجود عوام الناس کے مسائل کیوں حل نہیں ہو رہے عوام کی آسانی کے لیے تعینات پر کشش مراعات والے قد دان عوام کے مسائل حل کر نے سے قاصر کیوں ہیں ، سیدھا سا جواب یہ ہے کہ نظام کے ” پیادے “ اپنے فرائض بھول کر صرف چاکری کے خوگر بن چکے انتظامی افسران اپنے عہدوں سے ” انصاف “ کر نے کے بجا ئے اپنے مفادات کے اسیر بن چکے پورے نظام میں ایسے افسران کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے جنہیں اپنے فرائض عزیز تر ہیں جن کے دلوں میں خوف خدا موجز ن ہے جن کے دل بے کسوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں ،المیہ یہ ہے کہ نظام چلا نے والے ” زر “ کے مرید بن کر خود اس نظام کو زمیں بوس کر نے پر تلے ہو ئے ہیں سو اس ساری رام کتھا میں عام آدمی کے لیے کو ئی جگہ باقی نہیں بچی ، چیختے رہیں چلا تے رہیں جب تلک قانون اپنا دم خم نہیں دکھا تا اس وقت تک عام آدمی کے نصیب میں فقط دھکے ہی لکھے ہیں ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :