لگے دنوں ایک دوست کے ساتھ سر کار کے ایک بڑے اسپتا ل جا نے کا اتفاق ہوا جاں بلب مریضوں کی ابتر حالت ایسی کہ دیکھی نہ جا ئے لیکن مریضوں کے زخم پر مر ہم رکھنے والے مسیحا اس طر ح سے ان کی ” تیمار داری “ میں چابک دست دکھا ئی نہ دئیے جس طرح کا تقاضا ان کا پیشہ ان سے کرتا ہے وسیع و عریض اور ہر سہولت سے لبالب اسپتال میں مریض پر یشانی میں ادھر سے ادھر ہو رہے تھے لیکن عمومی طور پر مر د وخواتین ڈاکٹر مریضوں کے درد سے بے نیاز اپنی ” خوش گپیوں “ میں مصروف دیکھا ئی دئیے ، ملک کے ایک بڑے اسپتال میں اگر مر یضوں کی دیکھ بھال کی حالت زار یہ ہے پھر خود اندازہ لگا لیجئے کہ ضلع اورتحصیل کی سطح پر سرکار کے شفا خانوں میں کیا صورت حال ہو گی ، دور دراز کے علا قوں میں سرکار کے اسپتالوں میں فر ض سے لگن کس درجے پر ہو گی ، سر کا ر کے تنخواہ دار مسیحا کس طر ح سے بھوک کی ردا اوڑھے مریضوں سے پیش آتے ہو ں گے ، سچ کیا ہے ، ضلعی اور تحصیل سطح پر قائم اسپتالوں کی حالت زار اس سے کہیں زیادہ نا گفتہ بہ ہے ، مریضوں کے ساتھ ڈاکٹروں اور طبی عملے کا رویہ انتہا ئی تر ش ہو تا ہے کچھ دن پہلے کی بات ہے ایک دوست اپنے والد محترم کو ضلع کی بڑی اسپتال میں لے کر گئے اور وہاں کے طبی عملے کی رویے سے دل برداشتہ ہو کر اپنے والد محترم کو بے نیل و مرام واپس لے آئے ، اچھے بھلے پڑ ھے لکھے شہری کے ساتھ اگر صحت عامہ کے کو زہ گر اس طر ح کا ” حسن سلوک “ کر تے ہو ں ذرا خود اندازوں کے گھو ڑے دوڑا لیجیے کہ کم پڑ ھے لکھے اور حقوق و فرائض سے نابلد معصوم شہر یوں کے ساتھ سر کار کے اسپتالوں میں کیا ہوتا ہوگا ، عام طور پر زبان و زد عام صحت عامہ کے بارے میں اس طر ح کی آراء ہیں البتہ کسی ” واسطے “ سے جانے والے مریضوں کا کچھ نہ کچھ بھلا ہو جاتا ہے لیکن عام مریضوں کی ” دل جو ئی “ کر نے کے لیے سرکاری اسپتالوں کا عملہ تیار نہیں ، سر کاری اسپتالوں میں عمومی طور پر طبی عملے کے ” ترش رو“ رویوں کی وجہ سے عوام کا صحت عامہ کے شعبہ سے جی بھی بھر گیا اور اعتماد بھی اٹھتا چلا گیا ، دل چسپ امر یہ ہے کہ یہی ڈاکٹر مرد و زن جو سر کاری اسپتالوں میں مریضوں سے دو میٹھے بول بولنے سے گریزاں رہتے ہیں اپنی نجی دکا نوں میں نہ صرف پورے انہماک سے مریضوں کا معائنہ کر تے ہیں بلکہ ان پر خوب صد قے واری بھی ہو تے ہیں ، سرکار کے شعبہ میں اسپتالوں میں اوپر سے نیچے تک تعینات عملہ جس طرح سے فرائض سر انجام دیتا ہے اس کی ایک جھلک تو پوری قوم نے سابق وزیر اعظم اور حال دیار غیر میں تشریف فر ما نوازشریف کے کو رونا ویکسین کے قصے میں دیکھ لی ، ایک شخص ملک میں مو جود ہی نہیں اور صحت عامہ کے مہر بانوں نے اسے کو رونا ویکسین بھی ” ٹوک “ دی اور اس کا ریکارڈ بھی مر تب کر نے میں دیر نہیں لگا ئی ، کیا صرف نواز شریف کے قصے تک سرکار کے صحت عامہ کے شعبے نے یہ شعبدہ بازی دکھلا ئی ، ایسا نہیں ہے ، ذرا اس معاملے میں گہرائی تلک جا نے کی زحمت کر لیجیے ”چمک “ اور ” تعلق خاطر “ کے بل پر سرکار کے صحت عامہ نے جو گل کھلا ئے سب سے پر دہ سرک جا ئے گا ، بہت کچھ عیاں ہو جا ئے گا کہ کو رونا ویکسین کے معاملات میں کیا کیا ہو تا رہا ہے ، خاص حالات اور معمولات میں حکومت وقت نے شہر یوں کی سماجی معمولات کو صحت عامہ کے شعبے سے نتھی کر دیا ہے ، اس ضمن میں حکومت وقت کے اعلی دماغوں کے اعلانات فرمودات اور اقدامات سے بچہ بچہ آگاہ ہو چکا لیکن کو رونا کے باب میں صحت عامہ کے شعبے کے انتظامات کتنے اعلی ہیں اس کا پول نوازشریف قصے نے خوب اچھی طر ح سے کھول دیا ہے ، پوری قوم کو کورونا ویکسین کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا لیکن صحت عامہ کے زیر انتظام کسی بھی ویکسین صدر مقام پر عوام الناس کے لیے انتظامات ذرا ملا حظہ کر لیجیے ، ریکارڈ کے اندراج کے اہم تر امر پر کس طرح کا عملہ تعینات کیا گیا ویکسین لگا نے والا عملہ کس تک اپنے فن میں طاق ہے ، کیا ویکسین عملہ ویکسین لگا نے سے پہلے ان تمام احتیاطی تدابیر پر عمل کر تا ہے جس کی تاکید بطور خاص کی گئی ہے ، ایک ایسا اجتماعی عمل جسے پو ری قوم کے لیے لازمی قرار دیا گیا اس اجتماعی معاملے کے لیے انتظامات میں اتنا ڈھیلا پن کہ بیاں سے باہر ہے ، ڈاکٹر کو پورے معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اس لیے کہ انسانی جان بچانے کے لیے رب کر یم نے ڈاکٹر کو وسیلہ بنا رکھا ہے لیکن دولت کی ہوس نے اس اہم شعبے کو بھی انسانی خدمت سے اریب قریب آزاد کر دیا ہے ، سرکار سے تگڑی تنخواہ کھری کر نے والا شاید ہی کو ئی مسیحا ہو جس نے نجی دکان نہ کھول رکھی ہو یا اپنے ہم پیشہ کی ” دکان “ پر تشریف فر ما نہ ہوتا ہو ، چلیں مسیحاؤں کی دکان داری کو ایک طرف رکھتے ہیں ، قوم کی مدعا بس یہ ہے کہ سرکار کے اوقات کار میں مسیحا کہلا نے والے حقیقی روپ میں قوم کی مسیحائی کا فریضہ سر انجام دیں اس قوم کی بد نصیبی مگر ملاحظہ فر ما ئیے کہ سرکار سے تگڑی تنخواہیں اور مراعات لینے والے زیادہ تر مسیحا سرکاری اوقات کار میں ” مسیحائی “ کو بیگار سمجھتے ہیں ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔