سانحہ اے پی ایس مقدمہ میں عدالت عظمی سے حکومت کے کپتان کو بلا وا آیا اور سکھ کی بات یہ کہ وزیر اعظم ایوان عدل سے بلاوے پر سر تسلیم خم بھی کر گئے ، عدالت عظمی میں عوام کی جان و مال کے محافظ اور عدل کر نے والو ں کے درمیاں جو مکالمہ ہو ا اس سے آپ اچھی طر ح اآگا ہ ہیں ، سانحہ اے پی ایس کو کئی سال بیت چکے، ایک صحیح سالم حکومت اقتدا ر کے کر ارے مزے لینے کے بعد رخصت ہو ئی ، خیر سے اب تو انصاف کے نام لیواؤں کو بھی عوام کے سر وں پر مسلط ہو ئے اچھلے بھلے ماہ و سال ہو چکے ، طرفہ تماشا ملا حظہ کیجیے ، ایک ایسا سانحہ جس نے پو رے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا ، معصوم طلبہ کے ساتھ اندوہناک سانحہ نے ایک طر ح سے پو رے سماج کی زندگی بدل کر رکھ دی ، اس سانحہ میں شہید ہو نے والے ” غنچوں“ کے والدین ہنوز انصاف کے حصول کے لیے در بدر ہیں ، ظاہر سی بات ہے اہم ترین معاملہ میں انتظامیہ کی اہلیت اور درد دل پر سوال تو پھر اٹھیں گے ،بیتے سالوں میں اس اہم تر معاملے میں انتظام اور انصرام کا زمام جن ہاتھوں میں رہا انہو ں نے کیا کیا ، اس سوال کا جواب مو جودہ حکومتی سربراہ کے پاس بھی واضح طور پر موجود نہیں ، نواز شریف اس وقت سیاہ و سفید کے مالک تھے ان کا فر ض اولیں تھا کہ اس سانحہ کے تمام ” شر یکوں “ کو عبرت ناک انجام سے دوچار کر نے میں اپنا کردار ادا کر تے ، نوازشریف ” بوجوہ “ اگر سارے معاملے کے ذمہ دارو ں کو ” لپیٹ “ نہ سکے پھر مو جودہ حکومت کے ذمہ داروں کا فر ض تھا کہ اس سانحہ سے جڑ ے ہر ذمہ دار کو اپنے انجام تک پہنچا تے دوم سانحہ کے متاثرین کی صائب اطوار سے اشک شو ئی کا ساماں کر تے لیکن دونوں حوالوں سے انتظامی سطح پر کچھ خاص کر نے دیکھنے اور سننے کو نہیں ملا ،دراصل سانحہ اے پی ایس ہما ری انتظامیہ اور انتظامی ڈھانچے کی نا اہلی کا استعارہ ہے ، عوام سے جڑا چھو ٹا سامعاملہ ہو یاسنگین سے سنگین تر ہر ایسے معاملے میں جس سے طبقہ اشرافیہ کا مفاد وابستہ نہ ہو ، طاقت اور اختیار کے وصف سے لیس قلیل فیصد اس کا ایسا ہی حشر نشر کیا کرتا ہے جس طرح سے سانحہ اے پی ایس کو بھد ے طریقے سے ” گول مول “ کر کے لپیٹ دیا گیا ، عدالت عظمی نے سانحہ اے پی ایس سے جڑ ے لوا حقین کے درد کو محسوس کیا، بڑی بات ہے لیکن مملکت خداداد میں ہر قدم پر دل کو شق کر نے والے ایسے واقعات بکھرے پڑ ے ہیں ، اجتماعی سطح پر پر کھ لیجیے ، ایسے بے شمار سانحات کی ایک نہ ختم ہو نے والی فہرست ہے جو انتظامیہ کی سرد مہر ی عدم تعاون اور عدم دل چسپی کی وجہ سے آج بھی توجہ طلب بلکہ حل طلب ہیں جہاں تک انفرادی معاملات کا تعلق ہے اس کے تذکرے سے پہلو تہی میں امان سمجھیے ، انتظامی سطح پر آخر بے بسی کا راج کیو ں کر ہے ، انتظامیہ عام شہر یوں کی داد رسی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر سر عت سے حرکت میں کیوں نہیں آتی ، عام آدمی کے ساتھ آئے روز ستم بالا ئے ستم کا بازار کیوں گرم رکھا جاتا ہے ، انتظامی سطح پر پا ئے جانے والی فر عونیت رعونت اور سست روی کے رسم کیوں سر بازار ہیں ، انتظامی ڈھانچے کے ” پیادے “ سے لے کر سربراہ تک سبھی ” میں “ کے نشے میں مست رہتے ہیں ، عام آدمی کی آہ و فغاں کو بھاڑ میں ڈالیں ، حالات اس نہج پر پہنچ چکے کہ عدالتوں کے فیصلوں اور احکامات کو بھی سیدھے سبھا ؤ کو ڑے دان میں ڈال دیا جاتا ہے ، کئی برس قبل جب عدالت کو ئی حکم جاری کر تی تو انتظامیہ کے ہاتھ پا ؤں پھو ل جاتے بڑے بڑے طر م خاں اپنے ماتھے سے پسینہ صاف کرتے نظر آتے اور بھاگم بھا گ عدالت کے احکامات پر عمل در آمد کو یقینی بنایا جاتا ، لگی دو دہا ئیوں میں انتظامیہ اور انتظامیہ کے ” دل و دماغ “ اس حد تک ” شیر “ بن چکے کہ اب عدالتوں کے احکامات کو بھی بڑی دیدہ دلیری سے سرد خانے میں ڈال دیا جاتا ہے ، سانحہ اے پی ایس کے باب میں عدالت عظمی اس سے قبل حکم نامہ جاری کر چکی تھی لیکن اس ھکم نامے پر انتظامیہ کے نا خدا ؤں نے کتنا عمل کیا ، یہ صرف ایک حکم عدولی ہے جس کو عدالت عظمی نے ” نظیر “ بنا نے کی جانب قدم اٹھا یا ہے ، عدالت عظمی کے معزز چیف جسٹس اور دوسرے معزز جج صاحبان اگر حکم جاری کر دیں کہ ایسے تمام مظلوم عدالت عظمی سے رجوع کر یں جو عدالتی فیصلے ہاتھوں میں اٹھا ئے در درکی خاک چھا ن رہے ہیں ، دیکھ لیجیے گا اصل تماشا اس وقت بر پا ہوگا ملک کے طول و عرض میں مظلوموں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو زر کثیر خرچ کر کے نچلی اور اعلی عدلیہ سے اپنے حق میں فیصلے اٹھا ئے در ماں ہیں ، نہ افسران ان کی سنتے ہیں نہ انتظام و انصرام سے جڑا کو ئی سرکاری مہر ہ عدالتی فیصلوں پر من و عن عمل در آمد کے لیے سنجیدہ ہے ، ، عدالت عظمی نے اب اتنظامیہ کا ” دفتر “ کھول ہی دیا ہے ، کتنا بہتر ہو گر عدالت عظمی ذرا ان مظلوموں کو بھی کسی دن عدل کے ترازو میں تولنے کی سعی کر ے جو عرصہ دراز سے اپنے حق کے لیے سرگرداں ہیں لیکن انتظامیہ کے بد مست پیادے نہ تو عدالتی فیصلوں کو ماننے کے لیے تیار ہیں نہ ہی ان مظلوموں کو ان کا جائز حق دینے کے لیے ہا تھ پا ؤں چلا نے کی زحمت کر رہے ہیں ، انصاف کی مسند پر براجمان انصاف کر نے والے اگر اپنے عدالتی فیصلوں پر عمل در آمد یقینی بنا نے کی ٹھان لیں یقین واثق ہے سال ہا سال سے اپنے حق کے لیے بھٹکنے والوں کی تمام تکالیف ٹھکا نے لگ جا ئیں گی ، کیا عدالت عظمی میں انصاف کی کر سیوں پر براجمان جج صاحبان اپنے فیصلوں کی تو قیر کے لیے دلیر انہ قدم اٹھا نے کی زحمت گوارہ کر یں گے ، یاد رکھیں انصاف صرف فیصلہ صادر کر نا نہیں بلکہ انصاف کی اصل رو ح یہ ہے کہ عدل کے مسند پر تشریف فر ما عادل عام آدمی کو اس کا حق بھی دلوا ئے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔