” اسی کا شہر ، وہی متحسب ، وہی قاتل “

بدھ 1 دسمبر 2021

Ahmed Khan

احمد خان

لگے چند دنوں سے جناب کرد کی تقریر کا چہار سو غلغلہ ہے بعض حلقے مکرم کر د کی تقریر سے اختلاف کا برملا اظہار کر رہے ہیں وہی کچھ حلقے جناب کرد کے ہم نوائی کا حق ادا کر رہے ہیں ، جناب کرد کے بیاں کر دہ کچھ نکات سے اختلاف بجا لیکن جناب کرد کے بیاں کردہ کچھ نکات نظام عدل کے حوالے سے پتھر پر لکیر ہیں ، ان کا یہ فرما نا کہ انصاف کے لیے سر گر داں بے شمار مظلوم صبح انصاف ملنے کی امید باندھے عدالتوں میں آتے ہیں اور شام کو دل پر ایک نئے گھاؤ کا اضافہ کر کے نامراد گھروں کو لوٹ جاتے ہیں بصد احترام مگر حقیقت یہی ہے ، ضلعی عدلیہ میں جس طرح سے عام آدمی انصاف کے حصول کے لیے جان جو کھوں میں ڈالتا ہے اس سے ہر بشر آگاہ ہے ، نطام عدل کے حوالے سے چند ایک سقم ایسے ہیں جن کی وجہ سے عام آدمی ہر گزرتے دن کے ساتھ وطن عزیز میں رائج عدل کے نظام سے مایوس ہو تا جارہا ہے ، اول انصاف کی فراہمی میں سست روی کا چلن عام سی بات ٹھہری ، دیوانی مقدمات تو عجب طرح سے انصاف کی سیڑ ھیاں طے کرتے ہیں ضلعی عدلیہ میں فوجداری یعنی فوری نو عیت کے حامل مقدمات کی رفتار بھی حوصلہ افزا ء نہیں دوم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہو نا تو یہ چا ہیے تھا کہ انصاف کا حصول مظلوموں کے لیے آساں تر ہو تا چلا جاتا ، اسے عام آدمی کی شومئی قسمت کہیے یا کچھ اور کہ ہر آنے والا دن عام آدمی کے لیے انصاف کا حصول کھٹن تر بنا تا جا رہا ہے ، وطن عزیز میں جسے انصاف چا ہیے اس کے لیے اولیں شرط سائل کی جیب کا لبالب بھرا ہونا ضروری ہے ، آج کل معمولی نوعیت کے مقدمے کی فیس وکلا ء دوست اچھی خاصی تگڑی لیتے ہیں ، جب تک مظلوم تگڑی رقم کسی وکیل کے ہاتھ پر نہیں رکھتا اس وقت تک کا مقدمہ پا ؤ ں پاؤں چلنے سے محروم رہتا ہے ، خدا لگتی یہ ہے کہ وکلا ء اکی تگڑی فیسوں کی سکت سے محروم بے شمار مظلوم چپ چاپ ستم پر ستم سہتے سہتے راہی عدم ہو جاتے ہیں ، عدالت عالیہ اور عدالت عظمی وہ عدالتیں ہیں جن پر عوام کا یقین کامل ہے یہاں مگر معاملہ یہ درپیش ہے کہ ہر کس ناکس کی رسائی عدالت عالیہ اور عدالت عظمی تک نہیں عام فہم سی بات ہے عدالت عالیہ سے جڑے وکلا ء کی فیس بلا مبالغہ لاکھوں میں ہے، مملکت خداداد میں فی کس آمد نی کو مد نظر رکھتے ہو ئے ذر ا خود فیصلہ کر لیجیے کیا ہر مظلوم عدالت عالیہ کی بھا ری بھرکم فیس کا بوجھ آسانی سے برداشت کر سکتا ہے ، عدالت عالیہ سے جڑا ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ عام طور پر سائل کے ذمہ وکیل کی ” زاد راہ “ الگ سے ہوا کرتی ہے ، ہر تاریخ پر سائل کو اس مد میں اپنے وکیل کو زاد راہ کی صورت ایک اچھی بھلی رقم دینی ہوتی ہے ، اس” مالی دریا“ کو دیکھ کر بہت سے مظلوم اپنے ساتھ ہو نے والے ظلم کو مقدر کا لکھا سمجھ کر گھر بیٹھ جاتے ہیں کم وپیش ایسا ہی قصہ عدالت عظمی کا ہے ، عدالت عظمی کے کردار پر کسی کو شک نہیں لیکن عدالت عظمی کے در پر صدا ئے انصاف بلند کر نے کے لیے بھی روپے کا ”دل گر دہ“ ازحد ضروری ہے ، عدالت عظمی کے نامی گرامی وکلاء عام سے مقدمے کی فیس کتنی لیا کر تے ہیں ، دنیا کے سر د و گرم سے آگاہ ہمارے تمام احباب بھلی طر ح سے جانتے ہیں ، عام آدمی کے لیے عدالت عظمی میں شنوائی اور پھر دور دراز علا قوں سے عدالت عظمی پہنچنے کا قصہ بہت سے مظلوموں کے ارادے توڑ دیتا ہے ، نظام عدل سے عام آدمی کا شکوہ ایک اور بھی ہے ، عوامی سطح پر یہ تاثر بختہ ہو تا جارہا ہے کہ امیر اور غریب کے لیے نظام عدل کے الگ الگ پیمانے ہیں ، طاقت ور اور پیسے کے وصف سے لیس ” پیادوں “ کو قابل وکیل بھی مل جاتا ہے ان کی ” صدا “ بھی ایوان عدل میں سر عت سے سن لی جاتی ہے ان کے مقدمات کو بھی ” اہمیت “ کی دم لگا کر فوراً سے پیشتر سن لیاجاتا ہے ، ان کے مقدمات پر فیصلے بھی جلد صادر ہو جا یا کرتے ہیں اس کے بر عکس عام آدمی کو انصاف کے حصول کے لیے صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑ تا ہے ، ضلعی عدلیہ میں جس طرح سے عام آدمی کا مقدمہ چلتا ہے اس سے صرف نظر کر لیجیے ، عدالت عالیہ میں بھی مقد مہ لگتے لگتے اچھا بھلا وقت بیت جاتا ہے ، ایسا ہی معاملہ عدالت عظمی میں بھی عام آدمی کو درپیش ہے ، جب تلک عام آدمی کے لیے فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کے لیے دیر پا بنیادوں پر ٹھوس اقدامات نہیں کیے جاتے عوامی چوکوں اور چوباروں میں عام آدمی کے لبوں پر شکوے رقص کر تے رہیں گے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :