فواد چو ہدری مو جودہ حکومت کے ان چند معدودے مہربانوں سے ایک ہیں جو حکومت کی ناکامی کا بھلے طور سے اقرار کر لیتے ہیں ، فوری اور تیز تر انصاف کی فراہمی اور نظام عدل میں پائے جانے والے سقم کے بارے میں جناب فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ہماری حکومت سرعت سے نظام عدل میں پائے جانے والی سستی کا تر یاق کر نے کے لیے اس طر ح اصلا حات نہ کرسکی قوم جس کی توقع حکومت سے باندھے بیٹھی تھی ، لگے دنوں اس وقت دل چسپ صورت حال پیدا ہو ئی جب عدالت نے سابق صدر زردراری کے ایک مقدمہ میں نیب سے شواہد طلب کیے اور جواب میں نیب کے ذمہ دار نے بغیر لگی لپٹی کہہ دیا کہ شواہد غائب ہیں ، اس طر ح کے ” واقعات “ دھانسو قسم کی شخصیات کے مقد مات میں عام ہیں ، طاقت ور طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے مقد مات نظام عدل میں جس طر ح سے چلتے ہیں اس سے ہر کو ئی آگاہ ہے ، طاقت ور طبقے سے تعلق خاطر رکھنے والوں سے نظام عدل کا حسن سلوک کو ئی نئی بات نہیں ، طاقت ور طبقے کو تو ” پوتر مخلوق “ کا درجہ کسی حد تک حاصل ہے ان کے زیر سایہ ان کے ” پیادے “ بھی عدالتوں اور عدالتی فیصلوں کو خاطر میں نہیں لا تے ، منہ زور افسر شاہی کا ” حسن سلوک “ عدالتوں سے ملاحظہ کر لیجیے ، سرکار کے لاڈلے افسران عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات میں ڈنکے کی چوٹ پر دانستہ تاخیری حربے اختیار کر تے ہیں لیکن بصد احترام عدالتوں میں تشریف فر ما معزز جج صاحبان کا سلوک ان کے ساتھ نہ جا نے کیوں مشفقانہ ہو تا ہے ، آئے روز ملکی عدالتوں میں افسران عوام کے مفاد سے لگ کھا نے والے مقد مات میں سرکار کی طرف سے پیش ہو تے ہیں اور ہر تاریخ پر عدالت میں جا نتے بو جھتے مقدمات میں تاخیر در تاخیر کے لیے حیلے گھڑ کر واپس آجا تے ہیں ، ستم کے شکار ہر تاریخ پر آس لے کر عدالت میں جاتے ہیں اور طاقت ور طبقے کے پیادے ایک دولفظ بول کر اگلی تاریخ لے کر بڑی شان سے واپس چلے جاتے ہیں ، نظام عدل میں حکومت سے زیادہ معزز جج صاحبان گر چاہیں تو فوری اور تیز تر انصاف کی فراہمی کے لیے اصلاحات لا سکتے ہیں ، عدالتوں میں تشریف فر ما معزز جج صاحبان اگر ان افسران کے ساتھ بھی عام مجرموں والا بر تاؤ شروع کر دیں یقین واثق رکھیے عدالتوں میں زیر سماعت بنام سرکار کے التوا ہزا روں مقدمات کے فیصلے مہینوں میں نہیں بلکہ دنوں میں ہو سکتے ہیں ، معزز عدالت کسی ایک افسر کو ہتھکڑی لگا کر جیل کی سلا خوں کے پیچھے دھکیل دے کسی ایک افسر کی تنخواہ بند کر نے کے احکامات صادر فر مادے ، یقین کیجیے کروفر کے ہنر سے لیس طاقت ور گروہ کی چھتری تلے اترانے والے کیسے ناک کی سیدھ میں ہو تے ہیں ، کل ایک جاننے والے دل گر فتہ لہجے میں اپنا دکھڑا سنا رہے تھے کہ وہ کم وپیش دو سال سے عدالتی فیصلوں پر عمل در آمد کے لیے عدالت میں دھکے کھا رہے ہیں ، ہر تاریخ پر سرکار شاہی کے نما ئندے آتے ہیں اور سرکار کی جانب سے عمل در آمد کا خط پیش کر نے کے بجا ئے حیلوں بہا نوں سے اگلی تاریخ اپنے نام کر کے چلے جاتے ہیں ، ہر تاریخ پر جب معزز جج صاحب عدالتی فیصلے پر عمل در آمد کے بابت دریافت کر تے ہیں سرکار کے پیادے ایک نیا بہا نہ معزز عدالت میں گھڑ کر اگلی تاریخ لے لیتے ہیں ، سلگتا ہوا سوال یہ ہے کیا عدالتیں طاقت ورمگر مچھوں کو نکیل ڈالنے کے لیے نہیں ، نظام عدل تو ہمیشہ کمزور کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے ، نظام عدل تو کمزور کی اشک شوئی کر تا ہے نظام عدل تو مظلوم کے آنسو پو نچھنے کافریضہ سر انجام دیتا ہے نظام عدل تو کمزور کو ظالم کی چیرہ دستیوں سے بچا تا ہے ، نظام عدل تو محمود و ایاز کو ایک صف میں کھڑا کرنے کی سبیل کر تا ہے ، یہا ں مگر کیا ہو رہا ہے ، مرغی چور کو عدالتیں سرعت سے پس زنداں دھکیل دیتی ہیں ، بھینس چوری میں ملوث مجرم کو نشانہ عبرت بنا دیا جاتا ہے ، عام آدمی کے خلاف نظام عدل سرعت سے حرکت میں آتا ہے لیکن اس کے بر عکس طاقت ور کے معاملے میں نظام عدل ایسی چابک دستی آخر کیوں نہیں دکھلاتا ، قانون کی سربلندی کا خواب کیسے حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے ، طاقت ور گروہ اور ان کی جی حضوری کا دم بھر نے والے کیسے ناک کی سیدھ میں ہوسکتے ہیں ، عام آدمی کو وہ انصاف جو ہوتا ہوا نظر آئے کیونکر ممکن ہو سکتا ہے ، اس صورت جب معز زعدالتوں میں تشریف فر ما جج صاحبان طاقت ور وں کے خلاف مقدمات کو سرعت سے انجام تک پہنچا ئیں گے جب عدالتوں میں تاریخ پر تاریخ پر لینے والی شاہی سرکار کو تاخیری حربے اختیار کر نے پر جیلوں میں دھکیلنے کی روش عام ہو گی ، جس دن عدالتوں میں قانون کی رسوائی اور طاقت وروں کی بادشاہی کا قلع قمع ہوگا دراصل صحیح معنوں میں وطن عزیز میں اس دن انصاف کا بول بالا اور ظلم کا منہ کالا ہوگا ، نظام عدل کے لیے کھر بوں روپے وقف کیجیے جب تک انصاف کی فراہمی میں ” محمود و ایاز “ کا چلن نظام عدل میں عام نہیں ہوتا اس وقت تک قانون طاقت ور کے گلے کا مالا اور غریب کے لیے مکڑی کا جالا ہی رہے گا ، چیختے رہیں چلا تے رہیں روتے رہیں بلکتے رہیں قانون اور انصاف جب تک شیر اور بکری کے لیے یکساں نہیں ہوگا اس وقت تک ظلم کی رادھا اسی طر ح ناچتی رہے گی ، قانون رسوا ہوتا رہے گا اور طاقت ور بادشاہ بنا رہے گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔