کسی بھی دور کے حزب اختلاف کے رہنما ؤں کے بیانات نکال کر دیکھ لیجیے ، جن دنوں ہمارے سیاست داں اقتدار سے دور اور عوام کے قریب ہوا کر تے ہیں ان دنوں حزب اختلاف کے رہنما ؤں کے بیانات عوامی جذ بات کے حقیقی عکاس ہوا کرتے ہیں ، ہمارے کہے پر یقین نہیں تو مشرف دور سے لے کر آج تک حزب اختلاف کا فریضہ ادا کر نے والے سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہبروں کے بیانات بلکہ فر مودات نکال کر دیکھ لیں ، مشرف دور میں میاں صاحبان قتدار سے کو سوں دور ان عوام کے غم میں کس طر ح سے گھل رہے تھے اسی عہد میں پی پی پی سمیت باقی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے رہنما ء بھی کم وپیش مسلم لیگ ن کے زعما ء کے نقش قدم پر تھے ، جب مسلم لیگ ن کے کاندھوں پر سوار میاں صاحبان اقتدار میں آئے حکومت میں آنے کے بعد کا طرز عمل اور ان کی پالیسیاں ناقدانہ نظر سے تول لیجیے ، ، 2007ء کے بعد سے جناب خان جس طرح سے عوام کے حقوق کے لیے صدا بلند کر نے میں پیش پیش رہے اس کی ” نظیر “ وطن عزیز کی جدید سیاست پیش کر نے سے یکسر قاصر ہے ، کو ئی ایک عوام مسئلہ بتلا دیجیے جس پر جناب خان نے اپنی لبوں کو جنپش نہ دی ہو ، جناب خان کی اس طر ز سیاست کی وجہ سے بہت سے نکتہ ور انہیں بھٹو مرحوم کے متبادل کے طور پر قوم کے سامنے پیش کر نے لگے بہت سوں کے خیا ل زریں میں جناب خان قوم کے لیے ایک امید اور نو ید کے طور پر سامنے آئے ، چھو ٹے بڑے جناب خان کو عوامی مسیحا سمجھنے لگے ، ذرائع ابلاغ نے الگ سے جناب خان کو ” نخریلی محبوبہ “ کا درجہ عطا کیا ، اقتدار میں آنے کے بعد جناب خان کے بیان اور فرمان اٹھا کر دیکھ لیجیے ، سیاست سے ادنی سی شد بد رکھنے والے بھی حیراں ہیں کہ جناب خان کے طرز عمل میں یک دم زمیں وآسماں کا فرق کیسے اور کہاں سے آگیا ، جناب خان جن دنوں حزب اختلاف کے سب سے بڑے سر خیل تھے روز گار کی فراہمی کے باب میں کیسے کیسے خوش ادا دعوے کیا کر تے تھے اب روزگار کے باب میں کیا فر ما رہے ہیں اور لگے ساڑھے تین سالوں میں روزگار کی فراہمی کے معاملے میں کیا اقدامات رواں کیے، سیدھے سبھا ؤ مو صوف فرماتے ہیں کہ ان کی حکومت روزگار دینے سے کامل طور پر معذرت خواہ ہے ، کل تلک جناب خان کا معقول بلکہ مقبو ل فر مان تھا کہ جب گرانی کی لہر منہ زور ہو تو سمجھ لیجیے کہ آپ کا حکمران چور ہے جناب خان کے دور میں گرانی نے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے اب ان سے گرانی کی فراوانی کے متعلق سوال کیجیے قبلہ بڑھتی گرانی کے عنصر کو سرے سے ماننے سے انکاری ہیں ، اس حالات نزاع میں بھی فرماتے ہیں کہ وطن عزیز سستا ترین ملک ہے ، عام آدمی حیرا ں ہے کہ کل تلک جناب خان ” پرچون “ طرز کی گرانی پر حکمرانوں کو لتاڑ کر رکھ دیا کرتے تھے ان کے عہد میں گرانی ” تھوک “ کے حساب سے بڑھی بلکہ مزید بڑھوتری کے قومی امکانات ہیں اس کے باوجود جناب خان گرانی کی ” بلا “ کو تسلیم کر نے کے بجا ئے الم غلم طرز کے جواز گڑ رہے ہیں ، عوامی مسائل کے باب میں جناب خان کے دائیں بائیں موجود ان کے زعماء کے بیانات اس سے بھی کہیں زیادہ ” عجب “ ہیں بڑے میاں صاحب کوسوں دور ہیں سو چھوٹے میاں صاحب نے آج کل جناب خان کا ” مرتبہ “ سنبھال رکھا ہے ہر عوامی قضیے پر جناب شہباز شریف بول رہے ہیں بلکہ خوب بول رہے ہیں دال چینی آٹے کا بھا ؤ ہو یا گیس اور بجلی کے بڑھتے نر خ جناب شہباز شریف کھڑا ک سے حکومت کی خبر گیری کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں ، الجھ پھیر کہاں ہے ، عام شہری دھوکہ کہاں کھا تے ہیں ، دراصل عام شہری حزب اختلاف کے دور میں سیاسی رہنما ؤں کے داغے گئے بیانات کے جھا نسے میں آکر دھوکہ کھا جا تے ہیں اور پھر اگلے پانچ سال عام شہری اپنے کیے کرا ئے کی سزا بھگتے ہیں ، کل تلک جناب خان عوام کے ” مسیحا“ کا کردار ادا کر رہے تھے آج جناب شہباز شریف اور بلا ول بھٹو قوم کی ” مسیحائی “ کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں ، کل جب یہ صاحبان میں اقتدار میں آجا ئیں گے تو جناب خان عوام کے ” مسیحا“ کا عہدہ سنبھال لیں گے ، کئی عشروں سے یہی کھیل چل رہا ہے ، اقتدار میں آنے والے اپنے مفادات کے لیے سرگرم ہوتے ہیں اور حزب اختلاف والے اپنی باری پکی کر نے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا تے ہیں ، جب انہیں اپنی محنت کا پھل ملتا ہے تو سابق ہو نے والے پھر سے اقتدار میں آنے کے لیے نئے سرے جال بچھا کر عوام کو بے وقوف بنا نے کے لیے سر گرم ہوجاتے ہیں ، سیاست کا دوسرانام بھلے وقتوں میں عوامی خدمت تھا اب تو کئی عشروں سے سیاست کا مطلب ذاتی خدمت بن چکا ہے ،اہل اقتدار اور حزب اختلاف سبھی ایک تصویر کے دو خوش نما رخ ہیں اور بس۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔