”سرکار کے پتر جمال‘‘

بدھ 12 جنوری 2022

Ahmed Khan

احمد خان

بھلے وقتوں میں چند پیسوں کا رسیدی ٹکٹ ڈاک خانے سے ملا کر تا تھا گا ہے گاہے مسلط حکمرانوں کی کمال مہر بانیوں سے پیسے کا زمانہ ہی لد چکا اب اغلب امکان یہی ہے کہ رسیدی ٹکٹ کی قیمت بھی روپوں میں ہو چکی ہو گی ، آپ ایک تجربہ کر لیجیے ،آپ بغیر کسی تعلق خاطر کے کسی ڈاک خانے سے رسیدی ٹکٹ لے کر دکھا دیجیے ، نظام نظام کی رٹ خلق کی زباں پر رقص کر رہا ہے ، کیا عملاً ظابطے قاعدے نام کی کو ئی شے مو جود ہے ، کیا قانون اور پھر اس سے بھی بڑھ کر قانون پر عمل داری کہیں نظر آتی ہے ، تلخ سچ کیا ہے ، رنگیلا طرز کے حکمرانوں کی عہد زریں کی شروعات ہو تے ہی نظام نام کی شے بتدریج ”بیمار “ ہو تے ہو تے اب عملاً دم توڑ چکی ہے ، کیا تحصیل اور ضلع کی سطح پر کو ئی نظام نظر آتا ہے ، اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر نام کے عہد ے محض مراعات اور خرابات کی حد تک رہ چکے ، چاروں صوبوں کی تحصیلوں میں کتنے اسسٹنٹ کمشنر عہدوں کی آسائش سے لطف لے رہے ہیں ، ان اسسٹنٹ کمشنر میں انگلیوں پر باآسانی گنے چنے اسسٹنٹ کمشنر ہیں جنہیں عوام کے مسائل کی فکر کھا ئی جاتی ہے ، جنہیں اپنے عہدے کے فرائض کا احساس ہے ، جن کے دلوں میں خوف خدا ہے ، اکثریت کی روش کیا ہے ، جا ئے تعیناتی کے بعد سب سے پہلا کام اپنی ضلعی چھتری کا بندوبست ڈپٹی کمشنر کے کھا تے میں خود کو ” حاضر باش “ ثابت کر نے کے بعد کیا ہوتا ہے، حالات کے اتار چڑھاؤ سے آگاہ قارئین خوب جانتے ہیں ، اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے عہدے بنیادی طور پر ” گھومتے نظر آؤ “ والے ہیں ، سرکار نے بالحاظ عہدہ ان افسران کو ایسی قیمتی گاڑیوں سے نوازا ہے جو بد مست ہاتھی کی طرح پہاڑوں کی چوٹی تک با آسانی جاسکتی ہے ، ، سوال مگر یہ ہے کتنے اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر اپنے دفاتر سے باہر اپنی رعایا کی آسانیوں کے لیے دوڑتے بھاگتے نظر آتے ہیں ، یونین کونسل سے ضلعی سطح تک کامل طور پر ” جی حضوری “ کا راج ہے، ضلعی سطح سے اوپر یعنی صوبائی اور مرکز تک پھر اثر و رسوخ کا جادو اپنا کام دکھلاتا ہے ، کسی زمانے میں محکموں میں افسران کے تقرر و تبادلے خالصتاً اہلیت قابلیت اور علا قے کے مخصوص عوامی مزاج کے مطابق ہوا کرتے تھے ، جب سے جمہوریت نے وطن عزیز میں پر پر زے نکالے ہیں اس کے بعد تقرر و تبادلوں میں اہلیت کی جگہ سفارش اور اب تو لگے کئی سالوں سے ” چمک “ کے تڑکے کی شنید بھی ہے ، جب نظام چلا نے والوں کے تقرر و تبادلے کی اہلیت ” وفاداری “ ٹھہر جا ئے ، اس حال میں نظام نے خاک چلنا ہے ، وفاداریاں رشتہ داریاں سفارش اور رشوت دراصل وہ دیمک ہیں جنہوں نے پورے نظام کو چاٹ لیا ہے ، سانحہ مری کے رونما ہو نے کے بعد کیا مناظر تھے ، پولیس افسران بھی مری میں نظر آرہے تھے اسسٹنٹ کمشنر بھی چابک دستی دکھا رہے تھے ڈپٹی کمشنر کی تما م توانائی بھی جا ئے حادثہ پر صرف ہو رہی تھی ، حکومت کے وزیر مشیر کبیر سبھی مری میں برف پر کھڑ ے ہو کر احکامات صادر کر رہے تھے ، سوال مگر یہ ہے کہ قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع سے قبل آپ کہاں تھے اگر مری کا اسسٹنٹ کمشنر حالات کی نزاکت کا بروقت ادراک کر کے اقدامات کرنے کی ٹھا ن لیتے ، قومی یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ آج اپنے پیاروں کی لاشوں پر غم زدہ خاندان ماتم نہ کر رہے ہوتے ، اب صدر سے لے کر ایک سپاہی تک ہر ایک پرتیلا پن دکھا رہا ہے ، مزہ تب تھا جب نظام کے یہ پر پر ز ے اپنے فرائض کی ادائیگی میں اس لگن کا مظاہرہ کر تے ، رعایا کی آسانی کے لیے از خود اس طر ح سے کمر بستہ ہو تے ، لیکن ایسا نہیں ہو رہا ، کیوں ، اس لیے کہ سرکار کے اعلی اور پرکشش عہدوں پر براجمان خود کو عوام کے خدمت گار نہیں بلکہ خود کو سرکار کے ” پتر جمال “ سمجھتے ہیں ، نظام کے پیادوں کا اس امر پر پختہ ایمان ہے کہ انہوں نے اپنے عہدوں کا صرف لطف لینا ہے اپنے عہدوں سے مراعات کشید کر نی ہیں ، عوام کا جو حال ہو ان کی بلا سے ہو ، اس لیے کہ نظام کے ان پیادوں سے باز پرس کی خو ختم ہو چکی ، جس نظام میں جزا و سزا اور باز پرس کی صفت ختم ہو جائے پھر عملاً وہ نظام مر جاتا ہے ، وطن عزیز میں بھی کاغذی کارروائی کی حد تک نظام موجود ہے عملاً مگر انتظام و انصرام اور قانون کا جنازہ کب کا نکل چکا ہے اگر اپنی زندگی پیاری ہے تو خود اپنی زندگی کی حفاظت کی کو اپنا لیجیے ورنہ نظام نے آپ کے ساتھ ایسا ہی کر نا ہے جس طر ح مری میں آپ کے ساتھ ہو چکا ہے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :