’’ڈیجیٹل پاکستان کے دعوے اور حقائق ‘‘‎

جمعہ 14 فروری 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

سوشل میڈیا بلخصوص یو ٹیوب،فیس بک، واٹس ایپ اور ٹیوٹر وغیرہ کے حوالے سے حالیہ حکومتی فیصلے کے بعد اس بات کا اندازہ لگانا اب زیادہ مشکل نہیں رہا کہ حکومت چلانے کے حوالے سے اور خود اپنی ذات کی حد تک بھی ، آکسفورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان کے ویژن اور ان کی سوچ کا لیول کیا ہے؟ ۔ کاروبارِ دنیا کو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ویب ساءٹس کے ساتھ منسلک کر کے دنیا اس وقت خلائی جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہے،اور ایک وہ ہیں جو فیس بک اور ٹیوٹر کو صرف اس لیئے پابندیوں کو شکار کرنے جا رہے ہیں کیونکہ یہاں سے ان کی حکومتی اور سیاسی ناکامیوں پر تنقید کی جاتی ہے ۔

لیکن ان کا دعوی پھر بھی ملک کو ڈیجیٹل پاکستان بنانے کا ہے ۔
حقیقتِ حال یہ ہے کہ تیسری دنیا میں رہتے ہوئے بھی آج ہم اس قدر مجبور ہیں کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کا بھی نوے فیصد کاروبار اور معیشت سوشل میڈیا نیٹ ورک سے منسلک ہو چکا ہے اور کاروباری طبقہ اب مکمل طور پر اس کا مرہونِ منت ہو کر رہ گیا ہے ۔

(جاری ہے)

یہ بات بھی واضع رہے کہ جس قدر سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال ہو گا اسی قدر حکومت کو بھی انٹرنیٹ سروسز کی فراہمی کے حوالے آمدن ہو گی لیکن اگر حکومت کے حالیہ فیصلے کو مدِ نظر رکھ کر دیکھا جائے تو اس فیصلے پر عمل در آمد کے بعد انٹرنیٹ کے استعمال میں یقیناً بڑی حد تک کمی واقع ہو گی جس باعث حکومت کو الگ سے مالی نقصان کا سامنا ہو گا ۔

اس ضمن میں جب کہ ملک میں پہلے ہی بے روزگاری کا دور دورہ ہے ۔ بے روز گار افراد کی ایک بڑی تعداد جو اس وقت یو ٹیوب اور فیس بک آن لائن مارکیٹنگ کے زریعے اپنی روزی روٹی کما رہی ہے پریشانی اور گھبراہٹ کا شکار ہے ۔ ایسے میں دکھائی یہی دے رہا ہے کہ حکومتِ وقت گویا پہلے سے ڈوبی معیشت کو مکمل طور پر دفنانے پر تلی ہوئی ہے ۔
مذکورہ سوشل میڈیا قانون یا اتھارٹی میں ایک شق کے مطابق اگر حکومت چاہے تو کسی بھی خفیہ شکایت پر کاروائی کرتے ہوئے کسی بھی شہری کے خلاف ،حکومت کی نظر میں غیر مناسب پوسٹ کرنے پر نہ صرف کارورائی کر سکے گی بلکہ اس کے گھر میں جاکر تلاشی یا اس کے بارے میں معلومات بھی لے سکے گی ۔

واضع رہے کہ شکایت کنندہ کا نام صیغہِ راز میں رکھا جائے گا،اسی بات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس قانون کی آڑ میں حکومت کے اصل عزائم کیا ہیں اور قومی مفاد کے نام پر کس طرح حکومت اپنے اوپر تنقید کرنے والوں کو فکس اپ کرے گی ۔ گویا عملی طور پر ملک میں سوشل میڈیا کے زریعے معلومات کے تبادلے کے عمل کو منجمد کرنے کا آغاز کر دیا گیا ہے با الفاظ دیگر مکمل میڈیا بلیک آوٹ ۔

یہی نہیں بلکہ واٹس ایپ وغیرہ پر صارفین کی گفتگو، معلومات اور ڈیٹا بھی حاصل کی جا سے گا اس طرح جوں جوں عوام کو مذکورہ قانون کی بابت آگاہ ہو گی، خوف کے شکار کے باعث سوشل میڈیا کا استعمال اتنا ہی کم ہوتا چلا جائے گا ۔ جس کا ملکی معیشت پر براہِ راست منفی اثر پڑے گا ۔ جس کا رونا پہلے سے ہی رویا جا ریا ہے ۔
یاد رہے چند ماہ قبل جب ایف بی آر نے عام بینک صارفین کے بینک اکاونٹس کی چھان بین کرنے اور انہیں منی ٹریل دینے کا پابند کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو کاروباری طبقے میں خوف اور ہراس پھیل گیا تھا اور تاجروں کے ساتھ عام پبلک نے بھی اپنے بینک اکاونٹ ہی بند کروانا شروع کر دیئے،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج عام کمرشل بینکوں کے عملہ کا زیادہ وقت صرف یوٹیلٹی بل کرنے پر صرف ہوتا ہے جبکہ بینک اکاونٹ خالی پڑے ہیں اور اب حکومت خزانہ خالی ہونے کا رنڈی رونا رو رہی ہے ۔

اسی طرح نہ جانے کس سائنسدان نے حکومت کو اپوزیشن اور بڑھتی ہوئی عوامی تنقید سے بچنے کے لیئے مذکورہ سوشل میڈیا قانون کی ایسی لازوال سائنس بتائی ہے ۔
وفاقی وزیر فواد چوہدری کی یہ ٹویٹ کہ’’ یہ قوانین کیسے میڈیا کی آزادی کے خلاف ہو گئے ,اس سے ڈیجیٹل میڈیا اشتہارات روایتی میڈیا کے نسبت زیادہ ہوں گے، سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے متعلق حکومتی فیصلہ سیاسی نہیں اقتصادی ہے‘‘ اب بندہ حیران کیوں نہ ہو کہ از خود حکومت ایک ایسا نا ممکن اور نا قابلِ عمل اعلان کر رہی ہے کہ سوشل میڈیا کے نئے قوانین کے مطابق تمام عالمی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تین ماہ میں پاکستان میں رجسٹریشن لازمی کروائیں جس میں ، یوٹیوب، فیس بک، ٹوءٹر، ٹِک ٹاک اور ڈیلی موشن سمیت دیگر کمپنیاں شامل ہیں ، کیونکہ دنیا کے کسی بھی ملک میں ایسے حکومتی اقدام یا اعلان کی نظیر نہیں ملتی ۔

اب تک کی اطلاعات کے مطابق مذکورہ کمپنیوں نے حکومت کے اس حالیہ اقدام کو ایک ایسی بد ترین سنسر شپ قرار دیا ہے جس کی دنیا بھر میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔
مذکورہ عالمی کمپنیاں کسی بھی طور پاکستان کے کسی بھی ایسے قانون کی پابند نہیں ہوں گی کہ جن سے ان کی خود مختاری متاثر ہو بھلے ان کی سروسز کو ملک میں بند ہی کیوں نہ کر دیا جائے ۔ کیونکہ یہ کمپنیاں ہمارے بنائے گئے قوانین کو اپنے اوپر لاگو کروا کر اپنی عالمی شہرت اور حیثیت کو کسی بھی طور متاثر ہونے دیں گی اور بل فرض اگر مذکورہ کمپنیوں نے حکومت کی اس اتھارٹی کے مطالبات اور قوانین کو ماننے سے انکار کر دیا تو پھر حکومت کو سوشل میڈیا کی تمام ایپلی کیشن بند کرنا پڑیں گی اور تیسری دنیا کے ملک، پاکستان کے عوام کو مجبوراً گونگے اور بہرے بن کر اس ملک میں رہنا ہو گا ۔


اب اس حکومتی اقدام کا دوسرا رخ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ممکن ہے کسی خیر خواہ نے عمران خان کے کان میں یہ کہ دیا ہو کہ اقتدار کی مضبوطی کے لیئے سعودیہ یا چینی حکومتوں نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ملک میں عوام کے حقِ آذادیِ اظہارِ رائے پر قدغن لگا دی جائے، اگر ایسا ہے تو حکومت پھر غلطی پر دوسری بڑی غلطی کر رہی ہے ۔ سعودیہ اور چین میں عوام پیٹ بھر کے کھا کر سوتے ہیں ، ان کے لئے مفت میڈکل اور تعلیم ہمہ وقت دستیاب ہے ۔

وہاں روزگار عام ہے ۔ انہیں ملازمت حاصل کرنے اور مکان بنانے یا خریدنے میں بھی کوئی مسعلہ درپیش نہیں اور مذکورہ ممالک کاروباری طبقہ بھی اپنی حکومتوں سے مطمعن ہے ۔ اس لیئے ان ممالک کے عوام کے پاس اپنی حکومتوں کے خلاف سوشل میڈیا پر احتجاج یا تنقید کرنے کا وہ حق یا جواز نہیں جو پاکستان کے عوام کو اس حکومت نے بڑے اہتمام سے خود میسر کر کے دیا ہے ۔


ملک میں اس وقت سوشل میڈیا پریشر ککر سے نکلنے والے دھوئیں یا بھاپ کی ماند ہے، مشکلات اور مصائب میں بھپری عوام کا غصہ اور دل کا غبار پریشر ککر کے اسی والو سے بھاپ کی صورت میں باہر نکل رہا ہے ۔ اگر حکومت اس والو کو بھی بند کر دینا چاہتی ہے تو نتیجہ میں ککر نے پھٹنا ہی ہے جس سے ہونے والے نقصان کی لپیٹ میں خود حکمران بھی آئیں گے ۔ اس لیئے اس ضمن میں اگر چین یا سعودیہ کو مشعلِ راہ بنانا مقصود ہے تو پھر اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ سوشل میڈیا پر بے جا پابندیوں سے جہاں عام صارفین خوفزدہ رہیں گے اور کاروباری طبقہ متاثر ہو گا تووہاں دوسری جانب مشکلات اور مسائل میں پسا ہوا طبقہ جو اپنا غصہ ملک کے حکمرانوں پر سوشل میڈیا کی نظر کرتا ہے،فیس بک اور ٹیوٹر پر پابندیوں کے سبب پھر وہی طبقہ اپنے نمائندوں کو راہ چلتے ان کے گریبانوں سے پکڑے گا ۔


ٹی وی چینلز کے کیمرے بند کروا کر،کالم سنسر کروا کر اور اسٹیبلشمنٹ مخالف صحافیوں کو نوکریوں سے نکلوا کر بھی حکمرانوں سے، غربت، مہنگائی اور بے وزگاری کی چکی میں پستی ہوئی قوم کے جذبات کو اگر یوٹیوب چینلز پر دیکھانا بھی برداشت نہیں ہو رہا یا حکومت مخالف ٹیوٹ برداشت نہیں ہو رہی تو پھر حکمران اس دن کے لیئے تیار رہیں جب باغی ہوتے عوام ان کی گاڑیوں کے آگے لیٹیں گے اور ان کے گھروں کے باہر دھرنیں دیں گے ۔

جو ان کی برداشت سے باہر ہو گا ۔
ہمیں یاد ہے یہ حکمران وہی ہیں جو ماضیِ قریب میں اپنے سیاسی مخالفین کی عزتیں تار تار کرنے اور جھوٹے پراپوگنڈہ کرنے کی غرض سے پیسے دے کر سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بنواتے رہے لیکن اب انہیں اپنے اوپر کی جانے والی جائز تنقید بھی برداشت نہیں بلکہ اب ان کی جانب سے سوشل میڈیا پر اخلاقیات میں رہنے کے لیکچر داغے جا رہے ہیں اور اب اپنی ناکام حکومت کی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کے لیئے سوال کرنے والوں کے منہ بند کرنے کی غرض سے اس کے واحد زریعہ اور پلیٹ فورم سوشل میڈیا کا بھی بلیک آوٹ کیا جا رہا ہے ۔


ایکٹرانک اور سوشل میڈیا کے زریعے اقتدار میں آنے والے حکمران یہ ضرور یاد رکھیں کل جب وہ اقتدار میں نہیں ہوں گے تو وہ پاکستان میں میڈیا پر بے تحاشا قدغنیں اور پابندیاں لگانے کے اپنے فیصلوں پر پچھتا رہے ہوں گے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :