گداگری کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟

بدھ 2 ستمبر 2020

Ahtsham Ijaz Bhalli

احتشام اعجاز بھلی

معاشرے میں کئی علتیں موجود ہیں جن میں سے ایک گدا گری بھی ہے۔یہ ایک ایسی علت ہے جو خودداری ختم کر کے معاشرے کو بھکاری بنا کر کھوکھلا کر دیتی ہے۔گداگری یعنی کسی سے بھیک مانگنا جہاں بعض لوگوں کی مجبوری ہے وہاں زیادہ تر لوگوں کا پیشہ بن گیا ہے اور اسے لعنت تصور کیا جاۓ تو بے جا نہ ہو گا۔ویسے تو بھیک مانگنا ایک عادت اور پیشہ ہے جو قومی اور ملکی سطح پر حکمرانوں سے شروع ہوتا ہے جو کہ اپنے سے طاقتور اور امیر ممالک کے آگے کشکول لیۓ کھڑے رہتے ہیں اور ان کے ڈھیٹ پن سے متاثر ہو کر عوام میں سے بھی ہڈ حرام اور مانگ کر کھانے کے شوقین اس پیشہ کو اپنانے میں دیر نہیں لگاتے۔


آزادی سے لے کر اب تک یہاں جن شعبوں نے ترقی کی ہے ان میں آبادی کا تیزی سے بڑھنا،کرپشن،معاشرتی عدم برداشت اور گداگری سرفہرست ہیں۔

(جاری ہے)

لیکن ابھی چونکہ بات گداگری کی ہو رہی ہے تو اسی کو جاری رکھتے ہیں اور اس کی مختلف تکنیکس کا جائزہ لیتے ہیں۔
آپ چاہے گھر پر ہوں،گاڑی میں ہوں،سڑک پر کسی ٹریفک اشارے پر کھڑے ہوں یا کسی بھی پبلک مقام ہر ہوں ہر جگہ بھیک منگوں کی فوج آپ کے پاس آ موجود ہو گی۔

گداگر ہر وقت بھڑوں کی طرح آپ کے پاس موجود ہوتے ہیں۔
ہر جگہ بچے،عورتیں،بوڑھے اور جوان پھیل کر کشکول کے ذریعے آپ کی زندگی اجیرن کیۓ دکھائ دیتے ہیں۔ان میں خودساختہ معذور،بیماری کا بہانہ بنا کر مانگنے والے،مسجد کے نام پر چندہ مانگنے والے،نشہ کرنے والے،مدرسوں کی رسیدیں دکھا کر مانگنے والے،والدین کی بیماری کا بہانہ بنانے والے اور جیب کتروں کی کہانیاں سنانے والے عادی بھکاری شامل ہیں۔


مجھے بھی بس اورپسنجر ریل گاڑی میں سفر کر کے ماضی میں بارہا تجربہ ہو چکا ہے کہ پیشہ ور بھکاری مختلف صورتوں میں حملہ آور ہوتے ہیں،کبھی معذور بھکاری مانگنے آ جائیں گے اور کبھی ہٹے کٹے بھکاری بالخصوص بھکارنیں اپنے ہاتھوں میں چھوٹے کارڈ پکڑے وارد ہوتی ہیں اور آپ سے پوچھے بغیر جھولی میں رکھ کر آگے بڑھتی جائیں گی اور اس کارڈ پر عموماً یہ لکھا ہو گا کہ ان کا کوئ کمانے والا نہیں اور ان کا خاوند یا والد وغیرہ کینسر کا مریض ہے اس کے علاج کے لیۓ رقم درکار ہے۔

سارے ڈبے کا راؤنڈ مکمل کرنے کے بعد وہ واپسی پر کارڈ پکڑتے ہوۓ امید کرتی ہیں کہ آپ ان کو خیرات سے نوازیں۔اب یہاں المیہ یہ ہے کہ اگر ان سے کہا جاۓ کہ بی بی تمہیں عزت سے روزی کمانے کے لیۓ کہیں کام لے دیتے ہیں تو اس پر وہ راضی نہیں ہوں گی کیوں کہ ان کو جھوٹ بول کر ہڈ حرامی کی کمائ کھانے کی عادت پڑ چکی ہے۔
ایک اور قسم خیرات کی آج کل بدقسمتی سے معاشرے میں بہت زیادہ سرایت کر رہی ہے اور وہ قسم ہڈحرامی اور دوسروں لوگوں سے جو محنت کر کے کماتے ہیں ان سے لیکر مفت کھانے کی ہے۔

اگر کسی کو گاؤں یا قصبہ میں پتہ چل جاۓ کہ آپ بیرون ملک یا بیرون شہر سے تشریف لاۓ ہیں اور آپ کھاتے پیتے ہیں تو پھر حقدار اور مسکینوں کے علاوہ بڑی تعداد آپ کے پیچھے ان بھکاریوں کی پڑ جاتی ہے جن کا کام ہی ایسے افراد کو تاڑنا ہوتا ہے اور ویسے وہ بظاہر اچھے کپڑے پہن کر پڑھتے نظر آئیں گے مگر ان کو بیروزگاری کا بہانہ بنا کر مانگتے ہوۓ بالکل شرم محسوس نہیں ہوگی۔

اگر انہیں کہا جاۓ کہ آ جاؤ کسی اور شہر میں کسی کے پاس تمہیں گزارے لائق نوکری لگوا دیتا ہوں تو ان میں سے اکثریت کی یا تو ڈیمانڈ ہی اتنی اونچی ہو گی یا پھر ان کا کہنا ہو گا کہ، ہم کوئ کسی کے کمیں ہیں جو ان کے پاس یا ان کے گھر میں کام کاج کریں۔ ان میں سےکچھ افراد ذرا اور مختلف قسم کی واردات کرتے ہیں کہ وہ آپ سے بہانہ گھڑ کر واپس نہ کرنے کی نیت سے قرض مانگ لیں گے۔

پھر آپ ان کو بھی بھول جائیں اور قرض کو بھی-
یہ جو بھکاریوں کے گروہ سڑکوں،بسوں، پبلک مقامات اور ٹریفک اشاروں پر حملہ آور ہوتے ہیں ان میں سے اکثریت کے باقاعدہ ٹھیکیدار ہوتے ہیں جو ان کو دیہاڑیاں یا کمیشن دیتے ہیں اور مقامی عملے بالخصوص متعلقہ پولیس کی مٹھی گرم کرنے کے بعد ہی یہ سب ممکن ہوتا ہے۔چائلڈ لیبر کا قانون موجود ہونے کے باوجود بھی بدقسمتی سے اس پر عمل نہیں ہوتا اور بچے بھیک مانگتے دکھائ دیتے ہیں۔


آخر میں یہی کہوں گا کہ معاشرے سے گداگری کا خاتمہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم پیشہ ور بھکاریوں کو خیرات نہ دے کر ان کی حوصلہ شکنی کریں گے اورجب حکومت بھی اپنا کشکول توڑ کر عوام کو بتاۓ گی کہ ہم عزت نفس بحال رکھنے والے لوگ ہیں ورنہ جس طرح بدقسمتی سے ہر حکومت پہلی سے بڑھ کر کشکول کو تھامنے والی آ رہی ہے اسی طرح بھیک مانگنے والے افراد کی خودداری بھی حکومت کی طرح سوئ رہے گی اور معاشرے میں گداگروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :