ویکسین کی مساوی تقسیم وقت کی اہم ضرورت

پیر 4 جنوری 2021

Ahtsham Ijaz Bhalli

احتشام اعجاز بھلی

کرونا نے 2020 میں دنیا کا نظام بدل کر رکھ دیا اور ابھی تک دنیا کے زیادہ تر ممالک اس موذی وائرس کی زد میں ہیں۔ابھی بھی بدقسمتی سے کچھ ایسے افراد موجود ہیں جو کہ کرونا کو سرے سے ماننے کے لیۓ تیار ہی نہیں یا پھر ان کا یہ نظریہ ہے کہ ماسک پہننے اور احتیاط کا کوئ فائدہ نہیں کیوں کہ یہ وائرس دنیا بھر کے افراد کو ایک دفعہ چمٹ کر رہے گا۔


ایسے جاہل افراد کی سوچ پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔میرے کئ جاننے والے اس عفریت کا شکار ہو چکے ہیں جن میں سے اکثریت اللہ کے فضل سے دوبارہ صحت یاب ہونے کی طرف گامزن ہے مگر وہ وائرس کا سن کر ہی کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے اللہ بچاۓ۔اس سے صحت یاب ہونے میں بھی وقت لگتا ہے اور اس سے وقتی طور پر ہی سہی آپ بہت پریشانی اور تکلیف کا شکار ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

خدانخواستہ اس کا شدید حملہ جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔بندے کو کرونا سے زیادہ اس کا خوف ہی مار دیتا ہے۔
اب نۓ سال کی آمد کے ساتھ ہی اچھی خبر یہ ہے کہ مختلف کمپنیوں نے کرونا سے بچاؤ کی ویکسین کو مختلف ممالک جیسے امریکہ،کینیڈا،برطانیہ وغیرہ میں منظوری کے بعد اس کی ترسیل شروع کر دی ہے۔ان کمپنیوں میں فائزر،موڈرنا،آسٹرازنیکا آکسفورڈ اور روسی سپوتنک کی ویکسین شامل ہے۔

بدقسمتی سے کرونا کے خلاف عالمی سطح پر لڑنے کا کوئ کامیاب محاذ نہ بن سکا۔امریکی صدر چین پر وائرس کے پھیلاؤ کا الزام لگاتے نظر آۓ اور چین وائرس کی بروقت اطلاع دنیا کو دینے کی بجاۓ اس کو چھپا کر دنیا کی نظر میں اور مشکوک ٹھہرا۔اس کے ساتھ ہی ڈنکے کی چوٹ پر وہ کبھی یہ کہتے نظر آۓ کہ یہ وائرس امریکہ سے شروع ہوا اور کبھی یہ کہتے نظر آۓ کہ وائرس اٹلی سے چین میں داخل ہوا۔

غرض عالمی اتحاد بننے کی بجاۓ زیادہ دوریاں دیکھنے میں آئیں۔
جو ممالک امیر ہیں انہوں نے ایک سال کی پروڈکشن پیشگی قیمت ادا کر کے اپنے لیۓ بک کر لی۔مثال کے طور پر امریکہ اور کینیڈا سمیت دیگر کئ امیر ممالک اس فہرست میں شامل ہیں مگر امریکہ،کینیڈا اور برطانیہ وغیرہ چند ایسے ممالک ہیں جہاں ویکسین کی ترسیل پہلے ہی شروع ہو چکی ہے۔
جو کمپنیاں اس دوڑ میں سب سے پہلے شامل ہوئ ہیں وہ ظاہری بات ہے کہ سب سے زیادہ منافع کمائیں گی مگر کیا وہ اپنی ویکسین کو دنیا کے غریب ممالک میں موجود عوام تک کم نرخوں پر یا مفت پہنچانے کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں گی یا نہیں؟یہ سوال اپنی جگہ پر قائم ہے۔


امیر ممالک اگر چاہیں تو غریب ممالک کے عوام تک ویکسین کی یکساں اور فوری تقسیم کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں مگر منافع کمانے والی کمپنیوں کی شکل میں موجود مافیاز کیا انہیں ایسا کرنے دیں گے؟
جو افراد آزاد معیشت کے حامی ہیں ان کا یہ کہنا ہے کہ ان کمپنیوں کو غریب ممالک کو ویکسین کی فوری ترسیل کا کہہ کر منافع سے محروم نہیں کرنا چاہیۓ کیوں کہ ماضی میں زیادہ تر کمپنیاں یہ سوچ کر ویکسین کی تیاری میں پرجوش نظر نہیں آئیں کیوں کہ وہ جانتی تھیں کہ وبا کا نشانہ غریب ممالک ہیں اور وہ ویکسین خریدنے کی سکت نہیں رکھتے اس لیۓ کیا فائدہ تحقیق اور تیاری پر اربوں ڈالر لگانے کا اگر اس کا منافع ہی نہیں ملنا تو۔


اگر غریب ممالک کے ویکسین کے سلسلہ میں کردار پر بات کی جاۓ تو ویکسین کی مساوی تقسیم کے لیۓ ایک سو بہتر ممالک بشمول پاکستان ایک ویکسین اتحاد کا حصہ ہیں جس کو عالمی ادارہ صحت کی سرپرستی حاصل ہے۔
اس اتحاد کی کوشش ہے کہ اگلے برس میں غریب ممالک کی کم از کم بیس فی صد آبادی کو ویکسین کا حصول مل جاۓ۔اس مقصد کے لیۓ سات ارب ڈالر کے لگ بھگ فنڈ جمع کرنے کا ہدف مقرر ہے جس میں سے تقریباً دو ارب ڈالر کے قریب جمع ہو چکے ہیں اور باقی کی کوشش جاری ہے۔


جن ممالک میں ویکسین کی ترسیل کا کام شروع ہو چکا ہے وہاں پر بھی اس کی ترسیل عام عوام تک پہنچنے میں مزید کئ مہینوں کا سلسلہ درکار ہے کیوں کہ بنیادی وجہ یہ ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر ویکسین کی فوری ترسیل ایک مشکل کام ہے۔
اگرچہ ویکسین کی تیاری اور عام عوام کے لیۓ منظوری کو ہی اگر سال نو کا تحفہ قرار دیا جاۓ تو بے جا نہ ہو گا مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام امیر متاثرہ ممالک اس کی مساوی ترسیل کو متاثرہ غریب ممالک کی عوام تک پہنچانے میں انسانی ہمدردی کے طور پر اپنا کردار ادا کریں۔

اس سلسلہ میں عالمی ادارہ صحت اور ویکسین سے منافع کمانے والی کمپنیوں کو بھی اپنا ہمدردانہ اور مثبت کردار ادا کرنا چاہیۓ۔
ہمیں ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر اجتماعی ہمدردی اور مفادات کا سوچنا ہو گا۔اسی صورت میں ہم ایک دوسرے کے حق ادا کرتے ہوۓ خدا پاک کے فضل سے اس موذی وبا کو ختم کرنے والے بنیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :