
عوام کب تک نااہلی بھگتے گی
منگل 2 مارچ 2021

احتشام اعجاز بھلی
مجھے اس طرح کی صورتحال میں ان ممالک کی حکومتیں یاد آتی ہیں جو اقتدار میں آتے ہی دن رات ایک کر کے عوام کی بھلائ کے قوانین بناتی ہیں اور جو وقت اپنی نااہلی چھپانے یا سابقہ حکومت کا رونا رونے میں صرف ہوتا ہے وہی وقت وہ عوامی فلاح میں لگاتے ہیں۔
مثال کے طور پر انیس سو پچھتر میں جب جب امریکہ نے ویت نام سے انخلا کیا اس وقت تک لاکھوں کی تعداد میں ویتنامی مر چکے تھے اور ملک کا نقشہ بگڑ چکا تھا۔
(جاری ہے)
اگر بنگلہ دیش کا جائزہ لیں تو دسمبر 1971 کے بعد اقتدار سنبھالنے والی حکومت بآسانی مغربی پاکستان پر ملبہ ڈال کر نااہلی کا مظاہرہ کر سکتی تھی اور اسی طرح بعد میں آنے والی حکومت اپنے سے پہلے والی حکومت کی بری کارکردگی کا رونا رو سکتی تھی مگر انہوں نے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کی بجاۓ اور پاکستان کی زیادتیوں کا رونا رونے کی بجاۓ اپنے ملک میں اقتصادی ترقی کا سفر جاری رکھا۔آج بنگلہ دیش کے چالیس ارب ڈالر سے زائد کے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں اور پچھلے چند سالوں میں کئ پاکستانی کاروباری حضرات بھی اپنا کاروبار بالخصوص کپڑے کا کاروبار بنگلہ دیش میں منتقل کر چکے ہیں۔
اب ہم جاپان کا جائزہ لیتے ہیں تو جاپان میں دوسری جنگ عظیم میں امریکہ کی جانب سے دو شہروں ہر ایٹم بم گراۓ جانے کے بعد بہت تباہی ہوئ اور اس کے اثرات جسمانی اور اقتصادی صورت میں کئ برسوں تک جاپان کو بھگتنے پڑے۔مگر آج امریکہ اور چین کے بعد تیسری بڑی اقتصادی قوت کا حامل ملک جاپان ہے۔ابھی بھی جاپانی اشیاء کا معیار پوری دنیا میں ایک مقام رکھتا ہے۔
جاپان کے ہتھیار ڈالنے کے بعد بننے والے پہلے وزیراعظم کی تقریباً دو مہینہ پر مشتمل حکومت سے لے کر دو ہزار بارہ سے لے کر دو ہزار بیس تک آٹھ سال وزیراعظم رہنے والے تک نے کبھی ماضی کا رونا نہیں رویا اور کبھی اپنی ناقص کارکردگی یا نااہلی کا مظاہرہ پچھلی حکومتوں کا رونا رو کر نہیں کیا۔یہی وقت انہوں نے حال پر صرف کر کے اسے بہتر بنانے پر لگایا ہے۔اس میں کوئ شک نہیں کہ جاپانی ایک محنتی قوم ہے اور اس کے سیاست دان اپنی قوم کی امیدوں پر پورا اتر رہے ہیں۔
اب ہم اپنے ایک اور ہمسایہ ملک ایران کی طرف نگاہ دوڑائیں تو وہاں بھی لاتعداد ملکی مسائل کے باوجود ملک اپنے پیروں پر کھڑا اور ترقی کی راہوں پر آگے بڑھتا دکھائ دیتا ہے۔ایران نے عراق کے ساتھ آٹھ سال جنگ بھگتی اور اس کے بعد آج تک امریکہ اور اقوام متحدہ کی جانب سے مختلف وجوہات کی بنا پر اقتصادی پابندیاں بھی بھگت رہا ہے۔
اس سب کے باوجود ایران نے کسی ملک کے آگے کشکول پھیلا کر بے بسی کا رونا نہیں رویا۔ایران کے حکمران بھی یہ کہہ سکتے تھے کہ ہم انقلاب لے آۓ ہیں اب بس اسی پر گزارا کرو اور خود پر لگی بیرونی پابندیوں کی وجہ سے ملک میں ترقی کے خواب دیکھنا چھوڑ دو۔
ایسی کئ اور مثالیں دنیا میں موجود ہیں مگر ان میں سے کسی نے بھی ہمارے حکمرانوں جیسا زرخیز دماغ نہیں پایا۔ہمارے حکمران اقتدار میں آنے سے پہلے ملک میں دودھ کی نہریں بہانے کا وعدہ کر کے عوام کو سہانے سپنے دکھاتے ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد کوئ عوامی فلاح کا کام کرنے کی بجاۓ پچھلی حکومتوں کی نااہلی،کرپشن اور خود کی دور حکومت کا مختصر دورانیہ ملنے کا رونا رو کے سارا الزام اپوزیشن جماعتوں یا اسٹیبلشمنٹ پر ڈال کر آسانی سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔
یہ رونا رو کر ہر دفعہ اپنی نااہلی اور ناکامی کا ملبہ دوسروں پر ڈال کر اپنی باری بھگتا کر نکل جاتے ہیں اور اگلی دفعہ عوام کو اپنے جھانسے میں لانے کی تیاری میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
احتشام اعجاز بھلی کے کالمز
-
آمرانہ سوچ کی حامل سیاسی جماعتیں
اتوار 6 فروری 2022
-
نیا سال اور کرونا کی نئی قسم
بدھ 5 جنوری 2022
-
لاہور کی آلودگی اور اس کے اثرات
بدھ 1 دسمبر 2021
-
وزیراعظم صاحب،مہنگائی پر توجہ فرمائیں
جمعرات 11 نومبر 2021
-
وینکؤور - سیاحوں کی جنت
جمعہ 29 اکتوبر 2021
-
پنڈورا لیکس کا ڈھنڈورا
بدھ 13 اکتوبر 2021
-
پیارے دادا جی کے نام
منگل 28 ستمبر 2021
-
عبدالستار ایدھی مسیحائے انسانیت
بدھ 14 جولائی 2021
احتشام اعجاز بھلی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.