دو کروڑ کا پلاٹ اور سابق بیورو کریٹ کی ناراضگی

جمعہ 27 دسمبر 2019

Aleem Osman

علیم عُثمان

لاہور پریس کلب کے ایک کمرے میں غُصے میں کسی کے چلانے کا شور سُن کر قریب ہی ہال میں موجود کئی ممبران اُس طرف دوڑے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ہر وقت ہنسی مذاق کرنے والا ایک سینئر ممبر سخت مُشتعل ھے اور اپنے سامنے نظریں جھُکائے اور ہاتھ باندھ کر کھڑے اعلیٰ سرکاری افسر کو بے نقط سُنا رہا اور شدید غُصے میں گالیاں دیئے جارہا ھے .

یہ سینئر ممبر رفیق میر تھے ، المعرُوف "چاچا رفیق میر"  . . نامور ترقی پسند رائٹر صفدر میر کے بھتیجے !
اور سامنے کھڑا اُن کے غیض و غضب کا ہدف تھا ، ڈی جی پی آر ، پنجاب اکرم شہیدی .

(جاری ہے)

وُہ پیپلزپارٹی کی گُزشتہ حکُومت کے دور میں وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری بھی رہے ، اور آج کل ؍بلاول ہاؤس میں سابق صدر؍ پاکستان آصف زرداری اور بلاول بھُٹو کے ذاتی میڈیا امُور کے انچارج اور پیپلز پارٹی کے میڈیا سیل کے سربراہ ہیں .

وُہ پی پی پی پنجاب کی ایک سابق صدر فائزہ ملک کے شوہر کے بھائی ہیں .
پتہ چلا کہ موصُوف نے اُنہیں کمرے میں اکیلا پا کر اُنہیں پنجاب حکُومت کی طرف سے ایک عدد رہائشی قبُول کر لینے کی درخواست کی تھی کہ "چاچا" بھڑک اُٹھے ، غُصے میں اُٹھ کر کھڑے ہو گئے اور DGPR پنجاب پر گالیوں کی بوچھاڑ کردی ، "چاچا" بار بار کہہ رہے تھے  "تُمہیں مُجھے پلاٹ آفر کرنے کی جُرات کیسے ہُوئی؟"
چاچا رفیق میر لاہور میں ھم اُن چند "بے وقُوفوں" کے امام تھے جو اپنے آدرشوں کے سبب سرکار سے پلاٹ جیسی رشوت کو گالی سے کم نہیں سمجھتے ، میری اُن سے مُلاقات نیُوز ایجنسی پی پی آئی میں ہُوئی تھی جہاں سے میں نے 1987 میں اپنے رپورٹنگ کیریئر کا آغاز کیا تھا، میں نے اُن سے زیادہ قابل انگریزی کا سب ایڈیٹر نہیں دیکھا ، حالانکہ وُہ حنیف رامے کی زیرادارت شُرُوع ہونے والے روزنامہ مُساوات میں رہے تھے جس کے بند ہو جانے کے بعد پی پی آئی میں چلے گئے تھے .


دوسری طرف میرے درجن بھر سابق کولیگ حضرات جو برسوں پہلے نہ صرف صحافت کا پیشہ ہی چھوڑ چُکے ہیں بلکہ یہ شہر کیا ، مُلک تک چھوڑ گئے ہیں ، اپنی فیملیز کے ساتھ سات سمندر پار جاچُکے ہیں ، اور ٹورانٹو ، مانٹریال سمیت کینیڈا کے مُختلف شہروں اور امریکہ و یورپ میں سیکورٹی گارڈ لگے ہُوئے ہیں یا مزدُوری کر رہے ہیں ، لاہور کی صحافی کالُونی میں اپنا ؍حصہ وصوُل کرنے یعنی پلاٹ لینے کی غرض سے کئی ماہ کی چھُٹی لے کر لاہور آتے رہے ہیں .


شمشاد احمد خان پاکستان کے اُن مُعتبر seasoned سفارت کاروں میں شامل ہیں جو آغا شاہی اور صاحبزادہ یعقُوب علی خاں کے بعد ھمارے دفتر خارجہ زینت بنے ، آج کل لاہور میں ریٹائرڈ زندگی گُزار رہے ہیں ، ایک روز قبل مولانا ظفر علی خاں ٹرسٹ کی ہفتہ وار فکری نشست میں مہمان مُقرر کے طور پر بُلایا گیا . اُنہوں نے کہا قائد اعظم نے 14 اگست 1947 کو جو پاکستان بنایا تھا ، آج تک اُسی کو ڈھُونڈ رہا ہُوں  البتہ حاضرین نے جب فارن سروس کیریئر کے حوالے سے کُچھ یادیں شیئر کریں تو شمشاد احمد خان نے ایک ریٹائرمنٹ کے بعد پیش آنے والا نہائت دلچسپ واقعہ سُنایا .

شمشاد احمد خان نے کہا " مُجھے ایک فون آیا ، فون کرنے والے نے کہا سر ، اسلام آباد میں آپ کا ایک پلاٹ ھے ، اسی سلسلے میں آپ کو فون کیا ھے ، میں کئی بار آپ سے رابطے کی کوشش کر چُکا ہُوں مگر آپ سے بات نہیں ہو سکی . میں نے کہا بھائی میرا تو کوئی پلاٹ نہیں ھے جس پر اُس نے کہا نہیں سر ، آپ کا ایک پلاٹ ھے . جب میں نے اُسے دوٹوک کہا بھائی میرا اسلام آباد میں کوئی پلاٹ نہیں ھے تو اُس نے اصرار کرتے ہُوئے کہا سر.،. آپ ایک بار مُجھے مُلاقات کا موقع دیں ، میں آپ کو تفصیل سے بتاؤں گا  " شمشاد احمد خان کہتے ہیں" میں نے اُسے مُلاقات کا وقت دے دیا ، اُس نے آکر مُجھے ایک فارم تھماتے ہُوئے کہا " بس ، آپ اس پر دستخط کردیں" وُہ میرے سابق ڈیپارٹمنٹ کا ایک افسر تھا ، جب میں نے اُسے کہا بھائی مُجھے کسی پلاٹ کی ضرُورت نہیں ، میرے پاس رہنے کےلئے پہلے ہی گھر موجُود ھے تو اُس نے کہا سر ، اس کا بھی میں بندوبست کر کے آیا ہُوں .

میں 10 لاکھ رُوپے ساتھ لے کر آیا ہُوں ، یہ بیعانہ ھے  ، آپ سمجھیں آپ کا پلاٹ بک گیا "
شمشاد احمد خان نے بتایا " اُس نے میرے اصرار پر تفصیل بتاتے ہُوئے کہا آپ کا پلاٹ 2 کروڑ کا ھے ، ٬اس میں اتنا شیئر منسٹر کا ھے ، اتنا سیکرٹری صاحب کا ھے اور تھوڑا سا حصہ مُجھے بھی مل جائے گا ، بس آپ اس فارم پر سائن کر دیں " شمشاد احمد خان کہتے ہیں " مُجھ سے اپنے غُصے پر قابُو پانا مُشکل ہو رہا تھا ، میں نے اُسے کہا ، میں نے آپ کو مُلاقات کی ؍اجازت دے کر آپ کو بُہت عزت دے لی ، بہتر یہی ھے کہ آپ اسی وقت یہاں سے چلے جائیں ، میں نے سخت  ناراضگی کے ساتھ اُسے کہا ، بس ، آپ میرے گھر سے نکل جائیں  " شمشاد احمد خان نے دُکھ بھرے لہجے میں کہا مُجھے تو ریٹائر ہُوئے بھی بارہ چودہ سال ہو چُکے تھے مگر  مال بنانے والے ابھی تک ریاست کی زمین میں سےمیرے حصے کا کوئی پلاٹ ڈھُونڈ لائے تھے" قائد اعظم نے 14 اگست 1947 کو جو پاکستان بنایا تھا ، میں آج تک اُسی کو ڈھُونڈ رہا ہُوں "
اتفاق سے مولانا ظفر علی خاں ٹرسٹ کے ایک ٹرسٹی اور سرگرم ترین شخصیت مُجیبُ الرحمن شامی اتّفاق سے اس روز موجُود نہیں تھے ، ورنہ مہمان شخصیت کا یہ واقعہ سُن کر بُہت مایُوس ھوتے اور شرمسار بھی  .

. . شائد !!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :