ہم اندھے بہرے گونگے لوگ

بدھ 26 اگست 2020

Aman Ullah

امان اللہ

ہم لوگ خود کوآئینے میں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم ایسے انسان ہین ، جو بیک وقت بینائی ، سماعت اور گویائی جیسی نعمتیں رکھنے کے باوجود بھی ان تینوں نعمتوں سے محروم ہیں ، کیونکہ کہ ہم لوگ برائی دیکھ کر یوں ٓآنکھیں میچ لیتے ہیں گویا ہم اندھے ہوں آج 25 اگست بروز منگل جب میں ایک گھر سے ہوم ٹیوشن پڑھا کر واپس گھر اآرہا تھا تو ضلع جھنگ کے نیا شہر کے مشہور چوک موسیٰ چوک کراس کیا تو کچھ اوباش لڑکے ایک نوجوان کو لاتوں اور مکوں سے ماررہے تھے افسوس!کی بات تو یہ ہے اردگرد کھڑے لوگ چپ چاپ تماشہ دیکھ رہے تھے مجال ہے کسی نے اس لڑکے کو بچانے کی ہمت کی ہو ، ان اوباش لڑکوں میں سے ایک لڑکا ان سے مخاطب ہوا کہ تم یارو!اس کو مارو میں ویڈیو بناتا ہوں مزہ آئے گا شوشل میڈیا پر اپ لوڈ کریں گے اوروہ چیختا چلاتا رہا کہ مجھے مت مارو میری بات تو سنو !مجال ہے کسی کو فرق پڑاہو ۔

(جاری ہے)

گویا ہم اندھے ہوں مظلوم عوام کی چیخ وپکار پر اپنے کان یوں بند کرلیتے ہیں جیسے ہم پیدائشی بہرے ہوں اور اپنی نظروں کے سامنے ہوتے ظلم کو دیکھ کر زباں پرخاموشی کے قفل ایسے لگاتے ہیں جیسے خالق کائنات نے ہمارے بولنے کی صلاحیت سلب کر کے ہمیں گونگا کردیا ہو ، آج برما ، فلسطین اور کشمیر کے مسلمان ظلم کی چکی میں پیس رہے ہیں وہ مدد کو پکار رہے ہیں مگر ہم تو ٹھہرے اندھے ، بہرے ، گونگے لوگ ہم پر تو تو ان مظلوم مسلمانوں کی آہ و بکاہ کا زرا سا اثر نہیں ہوتا ہم لوگ ظالموں کے ظلم پر افسوس کرکے سمجھتے ہیں کہ ہم نے مسلمان ہونے کا حق ادا کردیا ، اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا ، اے موسیٰ علیہ السلام اب اس نا فرمان قوم پر افسوس نہ کرنا (سورت انعام ۵آیت )یعنی کے اللہ تعالیٰ نے خود ظالم پر افسوس کرنے سے منع کردیا ہے اور اگر دیکھا جائے تو ظلم پرخاموشی اختیار کرکے ہم بھی ظالموں میں شامل ہو جاتے ہیں کیونکہ ہمارے دین نے ہم پر یہ بات آج سے چودہ سال پہلے واضح کردی تھی اس ضمن میں خاتم النبین حضرت محمد ﷺنے فرمایا لوگ جب ظالم کو ظلم کرتا دیکھیں اور اسکے ہاتھ نہ پکڑیں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کو اپنے عذاب میں پکڑلے (سنن ابی داؤد حدیث نمبر ۴ صحیح)ا س حدیث مبارکہ سے واضح ہوگیا کہ ظلم پر خاموش تماشائی بن جانااللہ کو سخت نا پسند ہے فلسطین پر ہونے والا ظلم ہو یا کشمیر میں ہونے والی خون ریزیاں آج کا مسلمان ایک خاموش تماشائی بنا ہوا ہے کسی آفاقی معجزہ کے انتظار میں ہے کسی محمد بن قاسم تو کسی ارطغرل غازی کے انتظار میں مگر خود کچھ نہیں کرنا چاہتا وہ مسلمان جو کبھی ثالثی کی حیثیت رکھتا تھا اب ایک تماشائی بن چکا ہے ہمارے اپنے ملک میں ظلم عروج پر ہے چھوٹے بچوں اور بچیوں کے ساتھ مبینہ طور پر زیادتی کے روزانہ کتنے ہی کیسز رپورٹ ہوتے ہیں اور کتنے ہی پوشیدہ رہ جاتے ہیں کتنی ہی بچیوں کو محبت کے نام پر بے آبرو کیا جاتا ہے اور کتنی ہی بچیوں کے ساتھ مبینہ طور پر ذیادتی کرکے ویڈیو بنا کر انٹر نیٹ پر وائرل کردی جاتی ہے اور سونے پر سوہاگہ کے ہم لوگ اسی خاندانی پر طعنے کس رہے ہوتے ہیں جسکے ساتھ یہ ظلم ہوا ہوتا ہے اور شاید ہماری عادت بن چکی ہے ظالم کا سہارا بننے کی ہم سب ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں ظالم سر اٹھا کرجبکہ مظلوم سر جھکا کر جیتا ہے شاید آج کے مسلمان کے لیے ہی علامہ
اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے کہا تھا ۔

۔۔۔۔۔۔۔
گونگی ہو گی آج زباں کچھ کہتے کہتے
ہچکچاگیا میں خود کو مسلمان کہتے کہتے
اور اسی وجہ سے ہمارے ہان بہت سے خاندان بدنامی کے خوف سے کیس واپس لے لیتے ہیں تو کچھ خاندان گواہ نا ملنے کی وجہ سے کیس واپس لے لیتے ہیں اس پر ظلم کی حد کہ اگر ظالم طاقتور و دولت مند ہو تو وہ قانون بھی خرید لیتا ہے گواہ بھی اور طب کا شعبہ بھی تو کبھی وہ خاندان کو مارنے کی دھمکیاں دے کر کیس واپس لینے پر مجبور کردیتا ہے چنانچہ وہ خاندان کیس واپس لے لیتا ہے اور پھر لوگ اسی خاندان کو مجرم قرار دے دیتے ہیں کہ انکی غلطی تھی تبھی تو کیس واپس لیا ہے یوں ہمیشہ کی طرح ظلم سرخرو اور معاشرہ شرمندہ ہوجاتاہے اورہمارے اس طرح کے معاشرتی رویے سے ظلم کو تقویت ملتی ہے کیونکہ ہم دوسروں کو طعنہ دیکر باتیں سنا کر بدنام کرکے ظلم سہنے پر مجبور کردیتے ہیں مظلوم ظالم اور ظالم مظلوم دکھائی دیتا ہے کیونکہ کہ ہم وہی دیکھتیں ہیں جو ہمیں دوسرے دکھاتے ہیں وہی سنتے ہیں جو ہیمں سننے کو کہا جاتا ہے اور ہم وہی بولتے ہیں جسکا ہمیں کہا جارہا ہوتا ہے گویا ہم حقیقت سے بہت دور جی رہے ہیں اور ہماری ان عادات کی وجہ سے ظلم کو تقویت مل رہی ہے اگر ہم بھی اندھوں کی طرح ہر غلط بات کو صحیح اور صیحح کو غلط تو ہم بھی عذاب کے حقدار ٹھہرا دیے جائینگے ، آج ہمارے پاس ظلم کے خلاف تلوار سے زیادہ تیز قلم اور سوشل میڈیا ہے اگر ہم اس کے زریعے زینب کو انصاف دلواسکتے ہیں تو کشمیر میں ہونے والے ظلم کے لیے بھی آواز بھی بلند کرسکتے ہیں اور فلسطین کی پکار بھی بن سکتے ہیں اور معاشرے میں ہونے والے ظلم کے خلاف بھی سیس پلائی دیوار بھی بن سکتے ہیں لیکن افسوس ہم لوگ فضول گیمزکو بین کروانے کے لیے آٹو ای میلز تو بنا لیتے ہیں سوشل میڈیا پر کمپنیز تو چلا لیتے ہیں مگر ظلم کے خلاف نہیں بول سکتے کہ ہماری ایک پوسٹ لگا دینے سے کیا ہوگا مگر وہ یہ بات نیں سوچتے کہ قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے ظلم کے خلاف آواز بلند کریں اپنے بچوں کو مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کا بتائیں انکو ظلم کے خلاف لڑنا اور حق کے لیے بولنا سکھائیں اور اگر آپ کے اردگر د ایسا کوئی واقع رونما ہو تا ہے جس پر سب کی توجہ دلانا ضروری ہو تو اس کو سوشل میڈیا پر ہائی لائٹ کرنے سے پہلے یا تصویر لگانے سے پہلے معاملے کی تصدیق کرلیں تاکہ غلط خبر سے کسی کی عزت نفس مجروح نہ ہو اور خبرکی تصدیق کرکے اچھا شہری ہونے کا ثبوت دیں ۔

۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :