خلیج میں تبدیلی کی لہر!

ہفتہ 10 جولائی 2021

Ameer Hamzaa

امیرحمزہ

عمان کے سلطان جناب ہیثم بن طارق آل سعید اتوار سے سعودی عرب کا تاریخی دورہ کر رہے ہیں، مشرق وسطی کے ماہرین اس تاریخی دورے کو بڑی پیش رفت بتارہے ہیں ، سلطنت عمان سعودی عرب کو عالم عرب اور عالم اسلام کی سپر پاور کے طور پر دیکھتا ہے، اور دوسری طرف سعودی عرب بھی سلطنت عمان کو عربوں کی مشرقی دیوار اور دنیا کے محفوظ سمندری راستہ کے طور پر دیکھتا ہے، کیونکہ عمان خلیجی ممالک میں ہونے کے باوجود جغرافیائی طور پر خدانخواستہ جنگ کی صورت میں ایک پرامن بحری راہداری تصور کیا جاتا ہے، تاریخی اعتبار سے عمان خطے کی اہم ترین طاقت تصور کیا جاتا رہا ہے، مشرق وسطی کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال ماضی میں دور رہنے والی ریاستوں میں قربت بڑھا رہی ہے۔

جو عالمی سطح پر اور خاص طور پر مشرق وسطی میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہے۔

(جاری ہے)

عمان جنوب مغربی ایشیا کا ایک اہم ترین ملک ہے جو جزیرہ نما عرب پر واقع ہے ۔ اس کی بری حدود شمال مغرب میں متحدہ عرب امارات سے اور مغرب میں سعودی عرب سے ، جنوب مغرب میں یمن سے جا ملتی ہیں ۔ ساحل کے اعتبار سے جنوب مشرق میں بحیرہ عرب شمال مشرق میں خلیج عمان ہے اور سمندر سے اس کی قربت پاکستان اور ایران سے بھی ہے۔


مرحوم سلطان قابوس نے ۱۹۷۰ کو اقتدار سنبھالتے ہی مملکت کا دورہ کیا تھا اور اس وقت کے فرمانرواہ شاہ فیصل سے ملاقات کی تھی۔ مرحوم سلطان قابوس اس تاریخی دورہ نے دونوں ممالک کے تعلقات کو نئی جہت فراہم کی تھی۔ اور سلطان ہیثم بھی منصب سنبھالنے کے بعد پہلا سرکاری دورہ سعودی عرب کا کر رہے ہیں، ایک طرف تو یہ دورہ ہر لحاظ سے تاریخی ہو گی مگر ساتھ ہی یہ دورہ اقتصادی اعتبار سے انتہائی اہم تصور کیا جا رہا ہے، کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان راہداری نہ ہونے کی وجہ سے عمان اور سعودی عرب کی آمدورفت امارات کے ذریعے ہی ممکن ہوتی ہے مگر عنقریب دونوں ممالک کو جوڑنے والی شاہراہ تکمیل کے قریب ہے ۔

جس کی لمبائی تقریباً 800 کلو میٹر ہے۔ سعودی عرب اپنے حصہ کی البطحا سے الربع الخالی تک580 کلومیٹر شاہراہ تیار کر چکا ہے ۔ اسی طرح عمان نے بھی 160 کلومیٹر تک عبری سے ربع الخالی تک شاہراہ تعمیر کر چکا ہے ۔ یہ سٹراٹیجک نوعیت کی شاہراہ ہے ۔ اس کی بدولت دونوں ملکوں کے شہریوں اور ان کے یہاں مقیم غیرملکیوں کو آمد و رفت میں بڑی سہولت ہوگی۔ اقتصادی سرگرمیاں تیز ہوں گی۔

سیاحتی پروگراموں کو فروغ ملے گا۔ یہ دونوں ملکوں کو جوڑنے والی پہلی شاہراہ ہوگی۔
اس شاہراہ کے افتتاح سے دونوں ملکوں میں تجارتی لین دین بڑھے گا اور سماجی رشتے مضبوط ہوں گے جبکہ سرمایہ کاروں کو کاروباری مواقع حاصل ہوں گے۔اور سات سے آٹھ گھنٹے کی مسافت بھی کم ہو گی۔ سلطان عمان کا یہ دورہ دوطرفہ اقتصادی تعلقات کو نئی شکل دینے میں اہم ثابت ہوگا۔

عمان اور سعودی عرب کے درمیان تجارتی حجم تقریباً ساڑھے تین ارب ڈالر ہے جس کو پانچ ارب ڈالر تک بڑھایا جا رہا ہے -سعودی عرب کے وژن 2030 کی طرح سلطنت عمان نے بھی ایک ایسی ہی معاشی اور معاشرتی اصلاحات پر مبنی تحریک شروع کر رکھی ہے۔ عمان میں اس پروگرام کو وژن 2040 کا نام دیا گیا ہے۔ عمان میں وژن 2040 کی شکل میں بیداری اور تجدید نو کی کوشش کی جا رہی ہے۔


سعودی عرب کے ویژن 2030 کے مشابہ اس ویژن کا مقصد عمان کی معیشت کو متنوع بنانا اور تیل کی دولت پرانحصار کم کرنا ہے۔اس وقت عمان کو زیادہ تر مالی وسائل تیل کی برآمدات سے ہی حاصل ہوتے ہیں۔گذشتہ دو سال کے دوران کرونا وائرس کی وبا اور عالمی مارکیٹ میں تیل کی کم قیمتوں نے عمانی معیشت کے لئے مزید مسائل پیدا کردیے ہیں۔
اس لئے حکومت سرمایہ کاری کے فروغ کے لئے کوشاں ہیں ۔

سلطان ہیثم کا دورہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ذرائع کے مطابق عمان میں سعودی صنعتی زون کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا جس پر ۱۰ ارب سعودی ریال کی سرمایہ کاری کی جائے گی نیز ان میں نوجوانوں اور کھیلوں، ثقافت، تجارت، ریڈیو اور ٹیلی ویژن، سرمایہ کاری، ٹیلی کام، انفارمیشن، ڈاک اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں تعلقات کو مزید وسعت دینے کے لیے منصوبوں پر معاہدے متوقع ہیں ۔

ایک طرف تاریخی دورہ اقتصادی اہمیت کا حامل ہے تو دوسری طرف سیاسی اعتبار سے بھی انتہائی اہم ہے ۔ مبصرین کے مطابق یمن تنازع کا پرامن حل اور خاتمہ بھی اسی دورہ سے وابسطہ ہے، ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں جلد ہی ایک بڑی تبدیلی بھی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔
اگر سعودی عرب عمان میں صنعتی زون قائم کرتا ہے تو یہ پاکستان کے لئے بھی نیک شگون ہے۔


سعودی عرب گوادر میں تیل صاف کرنے والا کارخانہ لگانے کے علاوہ تیل اور گیس کے ذخائر کی تلاش میں بھی دلچسپی رکھتاہے۔
گوادر میں سعودی عرب کی آمد سے عمان بھی سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کر سکتا ہے اگرچہ عمان تو بہت عرصے سے سی پیک میں شمولیت کا خواہاں ہے مگر ہماری سرد مہری کی وجہ سے ہم ابھی تک عمان کو اپنا اسٹراٹیجک پارٹنر نہیں بنا سکے ۔

اگرچہ پاکستان عمان کے عسکری تعلقات کافی مضبوط ہیں مگر ان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ تاریخی اعتبار سے گوادر عمان کا حصہ رہا ہے اور عمانی آبادی کا بڑا حصہ پاکستانی بلوچوں پر مشتمل ہے ۔ خیر پاکستان تو ابھی تک سفارتخانے کی ذاتی عمارت نہیں بنا سکا۔ تیس سال سے عمانی حکومت نے پاکستان کو اپنا سفارتخانہ تعمیر کرنے کے لئے ساحل سمندر پر انتہائی قیمتی پلاٹ بھی عطا کر رکھا ہے مگر بد قسمتی سے عمان ابھی تک پاکستان کے ریڈار پر نہیں آیا اور نہ ہی وزیراعظم صاحب کو خیال آیا حالانکہ پونے تین لاکھ پاکستانی عمان میں مقیم ہیں جو سالانہ لاکھوں ڈالر زرمبادلہ کی صورت میں پاکستان بھیجتے ہیں۔


گوادر سے عمان، مسقط کا سمندری فاصلہ 413 کلومیٹر اور سمندری فاصلے کے پیمانے کے مطابق 223.3 Nautical Miles ناٹیکل میل ہے اور ہوائی جہاز سے ہم گوادر سے صرف 20 منٹ میں مسقط پہنچ جاتے ہیں اور لانچ کے ذریعے چند گھنٹوں میں یہ فاصلہ طے کر لیا جاتا ہے۔ پاکستان جغرافیائی اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل ہے اس لئے ہمیں بھی سی پیک کو مزید ممالک تک وسعت دینے کی ضرورت ہے تا کہ پاکستان کو “ جیو پولیٹکس “ سے جیو اکنامک کی طرف شفٹ کیا جا سکے ۔ سعودی عمان بڑھتی قربت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان گوادر کے ذریعے چین عمان اور سعودی عرب کو لنک کر سکتا ہے اس سے چاروں ممالک بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔  اور عمان کے ذریعے افریقی ممالک تک رسائی بھی ممکن ہو سکے گی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :