
جب راج کرے گی خلق خدا
بدھ 17 جون 2020

عمار مسعود
(جاری ہے)
ان برسوں میں اس ملک کے ساتھ جو ہوا، سو ہوا مگر یہ بات ہر لمحہ لوگوں کو باور کروائی گئی کہ بھٹو خاندان اور اس کی سیاست اب ختم ہوچکی۔ اب اس ملک میں ان کی کوئی گنجائش باقی نہیں۔ بے نظیر نے باپ کی موت سے سمجھوتا کر لیا۔ بھٹو خاندان نے ایک ڈکٹیٹر سے ڈیل کر لی۔ اب پیپلز پارٹی قصہ پارینہ بن چکی۔ اب روٹی ، کپڑے اور مکان کا نعرہ دفن ہو چکا۔ اب ہے جمالو کی لے پر رقص کرنے والے دم توڑ چکے۔ اب بھٹو کے وفادار ختم ہو چکے۔ اب ان کے جانشین بھگوڑے ہو چکے۔ اب سرکاری بیانیئے کے مطابق غداروں کا کوئی نام لیوا نہیں رہا۔ اب اس ملک کے عوام اپنے لیڈر کو بھول چکے۔ یہ سبق اتنی دفعہ اتنے برس عوام کو رٹایا گیا کہ بہت سے لوگ اسی کو سچ سمجھنے لگے۔ ایسے میں انیس سو چھیاسی میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے وطن واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ ایک ایسے وطن میں جانے کے لیئے رخت سفر باندھا کہ جہاں قریبا ایک دھائی سے سرکار اس خاندان کے خلاف لوگوں کے ذہنوں میں نفرت تقسیم کر رہی تھی۔ ان کو کرپٹ ، کافر اور غدار کہہ رہی تھی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے وطن واپس آنے میں اتنی تاخیر کیوں کی ۔ اس حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں ہوتی رہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ وہ درست وقت کا انتظار کر رہی تھیں۔ کچھ کا خیال ہے وہ امریکہ بہادر کی آشیر باد کا انتظار کر رہی تھیں۔ کچھ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ وہ ساتھیوں سے تو رابطے میں تھیں مگر منظر عام پر آنے کے لیئے ایک جابر حکمران کے کمزور ہونے کا انتظار کر رہی تھیں۔ کچھ سمجھتے ہیں کہ وہ بیرون ملک میں اپنے روابط بڑھا رہی تھیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ وہ خفیہ طور پر پارٹی کو منظم کر رہی تھیں۔ لیکن سرکاری زرخرید ترجمان اس بات پر مصر تھے کہ بے نظیر اپنے باپ کے عدالتی قتل سے سمجھوتہ کر چکی ہیں۔ ان کی غیر موجودگی کو ڈیل سے بھی تعبیر کیا گیاکہ اب وہ دباو سے خوف زدہ ہو کر خاموشی سے دیار غیر میں زندگی گذارنے پر مجبور ہو چکی ہیں۔ ان کے والد کی جاگیر یعنی پیپلز پارٹی کی سیاست ختم ہو چکی ہے ۔ اب اس ملک میں ان کی کوئی دلچسپی باقی نہیں ہے۔
بہر حال بے نظیر نے ان تمام قیاس آرائیوں کو پس پشت ڈال کے وطن واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ اس وطن میں جہاں گذشتہ دھائی سے انکی کردار کشی ہو رہی تھی۔ جہاں ان پر ہر طرح کا الزام لگ چکا تھا۔ جہاں سرکاری ترجمانوں نے اپنے تئیں تمام تر معاشرے کی سوچ کی ذہنیت سازی کر لی۔ ان کو توقع یہی تھی کہ بے نظیر جب آئیں گی تو ان کے استقبال کے لیئے چند کارکنوں کے سوا کوئی نہیں ہو گا۔ ایک دھائی تک ڈکٹیٹر کا پھیلایا ہوا زہر عوام کے ذہنوں میں سرایت کر چکا ہو گا۔ اب عوام کو خود ساختہ امیر المومنین کے سوچ کے مطابق سدھایا جا چکا ہو گا۔ اب پیپلز پارٹی صرف تماشا بن کر رہ جائے گی۔
بے نظیر بھٹو بہادری کے ساتھ تمام تر خطرات کا مقابلہ کرتے ہوئے لاہور تشریف لائیں تو عوام کا ایک جم غفیر انکے استقبال کو موجود تھا۔ ایک لمحے میں عوام ڈکٹیر کا دس سال تک رٹایا سبق بھول چکے تھے۔ بے نظیر بھٹو نے اس ملک کی تاریخ کے سب سے بڑے جلسے سے لاہور میں خطاب کیا اور عوام نے جس والہانہ طریقے سے ان کا استقبال کیا اس سے ڈکٹیر کی تمناوں کا قصر ایک لمحے میں ڈھیر ہو گیا۔ عوام نے ایک دھائی کے تمام تر پروپیگنڈے کو ایک جلسے میں ہی تہس نہس کر دیا۔ تاریخ کے سب سے بڑے جلسے نے ہمیں یہ سبق دیا کہ جبر چاہے کتنا ہی کیوں نہ بڑھ جائے جب بھی اس ملک کے عوام کو موقع ملے گا وہ جمہوریت کے ساتھ ہوں گے ۔ وہ سیاسی قائدین کے ساتھ ہوں گے۔ وہ ایوان کی حرمت کے ساتھ ہوں گے۔ وہ آئین پاکستان کے ساتھ ہوں گے۔
انیس سو چھیاسی کے اس جلسے کو گزرے قریبا چونتیس برس ہو چکے ہیں۔ آج بھی اس ملک کے حالات وہی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اب بھٹو کے بجائے شریف خاندان زیر عتاب ہے۔ اب کفر کے فتوے ان پر لگ رہے ہیں۔ اب غداری کی تہمت نواز شریف پر لگائی جا رہی ہے۔ اب مریم نواز پر کرپشن کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ اب نواز شریف کے وفادار ساتھیوں کو نشان عبرت بنایا جا رہا ہے۔ اب مریم نواز اور نواز شریف کی تصویر دکھانے پر ممانعت ہو گئی ہے۔ اب انکی پریس کانفرنسز بلیک آوٹ ہو رہی ہیں۔ اب ابن الوقت، زر خرید سرکاری ترجمان مریم نواز کی کردار کشی کر رہے ہیں۔ اب تمام ٹی وی چینل سرکاری ترجمان بن چکے ہیں۔ اب ایک بار پھرآذادی صحافت کا نعرہ منوں مٹی تلے دفن ہو چکا ہے۔
مجھے نہیں معلوم کی اب کی بار نواز شریف کی واپسی اور مریم نواز کی خاموشی کو ٹوٹنے میں کتنا وقت لگے گا؟ اب انہیں بندشوں اور مصلحتوں سے آذاد ہونے میں کتنا وقت لگے گا؟ لیکن میں اتنا ضرور جانتا ہوں کی جب بھی مریم نواز کی خاموشی ٹوٹے گی تو یہ مصنوعی نظام صرف ایک جلسہ عام میں زمیں بوس ہو جائے گا ۔ سرکاری زرخرید ترجمانوں کا تخلیق کردہ جعلی بیانیہ عوام کے سمندر میں خس و خاشاک کی طرح بہہ جائے گا۔ کیونکہ وقت نے ہمیں یہی سبق سکھایا ہے کہ ظلم چاہے کتنا بھی کیوں نہ ہو اس ملک کے عوام جمہوریت کے وفادار رہتے ہیں۔ موقع ملتے ہی ووٹ کو عزت دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ تہتر برس سے خلق خدا کے راج کرنے کا خواب دیکھتے ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عمار مسعود کے کالمز
-
نذرانہ یوسفزئی کی ٹویٹر سپیس اور فمینزم
پیر 30 اگست 2021
-
گالی اور گولی
جمعہ 23 جولائی 2021
-
سیاسی جمود سے سیاسی جدوجہد تک
منگل 29 جون 2021
-
سات بہادر خواتین
پیر 21 جون 2021
-
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے نام ایک خط
منگل 15 جون 2021
-
تکون کے چار کونے
منگل 4 مئی 2021
-
نواز شریف کی سیاست ۔ پانامہ کے بعد
بدھ 28 اپریل 2021
-
ابصار عالم ہوش میں نہیں
جمعرات 22 اپریل 2021
عمار مسعود کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.