تو ذرا سوچیئے صاحب!

پیر 14 دسمبر 2020

Arbaz Raza

ارباز رضا

بعض اوقات انسان کچھ ایسی چیزوں میں اتنی بری طرح رنگ جاتا ہے سمجھو کہ غوطہ زن ہی ہو جاتا ہے۔ ایسی حالت میں وہ شخص بالکل خود سے ہی دور ہو جاتا ہے۔اس کی سوچ،فکر،خیال اور جستجو قید ہو کر رہ جاتی ہے۔ اسے معاشرے میں نہ ہی کوئی اچھائی اور نہ ہی کوئی برائی نظر آتی ہے وہ صرف اس چیز میں کھو جاتا ہے جو اس کے دماغ پر قابض ہو جاتی ہے۔

ایسا شخص نہ صرف محض اپنی ذات کے لئے بالکہ معاشرے کے لیے خطرہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں موجودہ سیاسی حالات کے اندر اگر عوامی رویہ دیکھیں تو آپ کو چار قسم کے لوگ نظر آئیں گے۔ ایک طرح کے لوگ ایسے ہیں جو کسی سیاسی جماعت سے اس لگن سے جڑے ہوئے ہیں کہ اس جماعت نے انہیں تھوڑا بہت پروٹوکول دیا۔اس کے MNA اور MPA نے ہنس کر سلام کیا۔ ملک صاحب، خان صاحب اور مہر صاحب جیسے الفاظ کہہ کر پکارا اور وہ لوگ ان کے دیوانے بن گئے۔

(جاری ہے)

جب تک وہ بندہ ا اقتدار میں رہا یہ بھی اس کی خوشامد اور وہ بھی انہیں خوشامدیوں والی قدر و عزت دیتا ہے۔ اگر اس دوران اس حکومتی عہدیدار کا کتا بھی مر جائے تو یہ لوگ چار چار دن اس کا افسوس کرنے ڈیرے پر جاتے ہیں۔ اس عہدیدار کو تسلی دیتے ہیں اور مفت مشورہ بھی۔ وہ بھی انہیں ایک کپ چائے کا پلا کر جانے کو کہتا ہے۔ اگر اقتدار کے بعد اس کے گھر میں سے کوئی بندہ بھی مر جائے تو ایسے لوگ صرف قل خوانی پر رسمی طور پر حاضری دیتے ہیں اور پھر گھر کی راہ لیتے ہیں۔

سیاستدان انہی لوگوں کی وجہ سے ہی جیتتے ہیں اور انہیں کی بدولت ڈوبتے بھی ہیں۔ کیونکہ ایسے لوگوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا۔ جس کا اقتدار ہوتا ہے یہ انہی کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔
 دوسرے وہ لوگ جو کہ خاندانی طور پر کسی سیاسی پارٹی پر جان نچھاور کرتے آرہے ہوتے ہیں۔ ان کی ہاں بھی پہلے والوں جیسا سماں ہوتا ہے۔ وہ ہر بات کو اچھا ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں چاہے وہ اچھی ہو یا بری۔

ان کا اہم مقصد ایک تو اس پارٹی سے فاہدہ لینا دوسرا عوام میں اپنا نام کمانا بھی ہوتا ہے۔ ایسے لوگ اپنی اس جماعت کے ساتھ وفاداری اور قربانی کے دعوے کرتے ہیں جو کہ سراسر جھوٹ پر مبنی ہوتے ہیں۔
تیسری قسم کے لوگ نہ ہی کسی پارٹی اور نہ ہی کسی سیاستدان کو سپورٹ کرتے ہیں۔ ان کے خیال و نظریات میں یہ سیاسی لوگ اقتدار میں آتے ہی اپنا فاہدہ سوچتے ہیں ان کا عوام کے ساتھ کوہی رشتہ ناتا نہیں رہتا۔

بس لوٹنا ہی ان کا کام اور شیوہ ہوتا ہے۔ موجودہ حالات کے پیش نظر ان کے نظریات بھی درست ہیں۔ ایسے لوگ ووٹ کا استعمال بھی نہیں کرتے جو کہ سراسر غلط ہے۔
چوتھی قسم کے لوگ اچھی طرح فکری اور ذہنی طور پر آزاد ہوتے ہیں۔ اگرچہ ان کی تعداد کم ہے مگر یہ موجود ہیں۔اس قسم کے لوگ ملک کے فائدے کی خاطر لیڈر کو سپورٹ کرتے ہیں اس کا ساتھ دیتے ہیں اور اس کی غلطی پر اسے غلط اور اچھے کام پر حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

ایسے لوگ ہی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ جو سب سے اہم بات شخصیت پرستی سے نکل جاتے ہیں۔جو اگر مباحثہ کرتے ہیں تو دلائل کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ ان کے آگے کوئی شخص محترم نہیں ہوتا صرف وہ جو اقتدار کا صحیح استعمال کرے ایسے لوگ اپنے ملک و قوم کی خاطر اپنے ووٹ کا نہایت عقلمندی سے استعمال کرتے ہیں۔ صرف اپنے ملک و قوم کی بہتری کے لیے خود پر قومی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔


اگر ہم موجودہ سیاسی منظر نامے پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ آج کے دور میں ہمارا یعنی کے عوام کا رویہ کیا ہے؟ کچھ ایسے ہیں جو آج عمران خان صاحب کو پسند کرتے ہیں حالانکہ کل کوئی اور تھا۔ کچھ ایسے ہیں جنہوں نے نہ ہی کوئی سیاسی جماعت کا کام دیکھنا ہے بس انہوں نے اسے سپورٹ کرنا ہے اور ان لوگوں کے ساتھ بھی جو مسئلہ پیش آ رہا ہے سب کو معلوم ہے یعنی کہ انہیں جس طرح سے استعمال کیا جا رہا ہے اس کا علم ہر شخص کو ہے۔

PDM کی بات کریں اس وقت وہ نہ ہی عوامی مسائل کی خاطر لڑ رہے ہیں ان کا سب سے اہم مقصد آل بچاؤ، مال بچاؤ اور کھال بچاؤ ہے۔ سب سے اہم مسئلہ جو ہمارا نہیں پوری دنیا کا ہے وہ COVID 19 ہے۔آج عوام کو بیوقوف نہ بنایا جائے تو اور کیا کیا جائے؟ بختاور بھٹو کی منگنی کے لیے کرونا ٹیسٹ منفی آنے کی شرط جب کہ اتنے بڑے جلسے کرکے عوام کی زندگی داؤ پر لگانا درست۔

اوپر سے رانا ثناء اللہ کا بیان کہ اپوزیشن کے جلسوں سے کرونا بھاگ جاتا ہے ایک مضحکہ خیز ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو عوام کی %1 بھی فکر نہیں ہے۔دراصل انہیں اب خاندانی سیاست کا سورج ڈوبتا نظر آ رہا ہے۔ انہیں اب لگ رہا ہے کہ انہوں نے بہت لوٹا اور مزید لوٹنا ان کے بس کی بات نہیں۔ ایک کے بعد ایک کو سیاست میں لایا جا رہا ہے دیکھنے میں لگتا ہے کہ پاکستانی سیاست خاندانی سیاست بن چکی ہے۔

یہ بات درست ہے کہ مہنگائی و بے روزگاری ہے پر ان دنوں میں جلسے کرنا مضحکہ خیز کام ہے۔ یہی وہ لوگ تھے جو کچھ ماہ پہلے حکومت کے خلاف لاک ڈاؤن نہ کرنے پر تنقید کر رہے تھے لیکن ان کی حرکتیں وہی پرانی ہیں۔ یہ جمہوریت کے دعویدار صرف جمہوریت کو ہی نقصان پہنچا رہے ہیں۔
ان تمام حالات میں قصور صرف عوام کا ہے انہیں بھی ان تمام جلسوں کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔

اس وقت پاکستانی عوام کو سوچنا ہوگا کہ یہ لوگ ان کے حق میں نہیں ہیں ان کا اہم مقصد اپنے خاندان کو ہی بچانا ہے۔باریاں بدل بدل کر ہمیں بے وقوف بنا رہے تھے۔ الحمداللّٰہ اب ان کا کھیل ختم ہو چکا ہے اب یہ سیاسی یتیم بنے دربدر پھر رہے ہیں۔ اس وقت ہمیں خود کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم کس عوامی Category میں موجود ہیں۔ اگر ہم آج بھی نہیں سوچتے تو یہ ہمیں مزید پستی میں دھکیلنے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔
 دعا ہے یہ سیاسی یتیم مزید دربدر بھٹکتے رہیں انہیں دوبارہ اقتدار کی ہوا تک نہ لگے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :