میرے وطن۔۔۔۔۔

جمعہ 14 اگست 2020

Arshad Hussain

ارشد حسین

جب ہم چھوٹے تھے تو سکول میں یوم ازادی بہت دھوم دھام سے منایا کرتے تھے۔ جھنڈے خریدتے تھے اپنے کلاس رومز کو جھنڈوں اور پھولوں سے سجاتے تھے۔ ایک مقابلہ ہوتا تھا ۔ کہ کس کی کلاس روم زیادہ سجا ہوا اور خوبصورت ہوگا۔ تقریرے مقابلے ہوتے تھے ۔ اور اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی ہم مصروف ہو جاتے تھے ۔ ہمارے اساتذہ کرام ہم کو تقاریر قومی نغمے اور نظمیں لکھ کے یاد کرواتے تھے ۔

ہم روز پریکٹس کرتے تھے ۔ اور اگست کے مہینے کا دل وجان سے انتظار کرتے تھے ۔ لیکن یہ خوشگوار وقت بس میٹرک تک محدود تھا ۔ کیونکہ کالج میں عموما 14 اگست کے دن چھٹی ہوتی تھی۔  اج یوم اذادی کی مناسبت سے بہت سے اہل علم حضرات نے عمدہ عمدہ تحریرے تحریر کی ہونگے ۔ جس میں شہداء کو سلام ان کی زندگی اور وہ تکالیف بیان کی ہونگے جو ہمارے بڑوں نے پاکستان حاصل کرنے کے لیے برداشت کی ۔

(جاری ہے)

میں تو ان کی تحریروں کی طرح شاہکار تحریر نہیں لکھ سکتا لیکن کوشش کرونگا کہ اپنے سکول کے یادوں اور ان دنوں کے احوال تحریر کر سکوں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ وطن ہمیں بہت قربانیوں کے بعد حاصل ہوا ہے۔ بہت سے شہیدوں کے لہو سے ہم اپنے ملک کے مالک بنے ہیں ۔ اج میں ان شہدا کو دل سے سلام اور اللہ سے دعا کرتا ہوں ۔ کہ اللہ سب کے درجات بلند فرمائیں امین ۔

لیکن ان شہدا کے قربانی سے حاصل ہونے والے اس ملک کے ساتھ ہم نے جو کیا ہیں ۔ اس کا خدا گواہ ہے۔ اور ہم سے پورا پوار حساب لیا جائے گا اس کا۔ بابا آشفاق احمد صاحب کی ایک کتاب ہے "گڈریا" جو ہر کسی کو ایک بار سمجھ کے پڑھنا چاہیے۔ اس میں اس نے اس وقت کی تھوڑی عکاسی کی ہے۔ ہمارے راہنماوں نے اس وطن کو حاصل کرنے کے لیے اپنے بچوں کی قربانی دی کسی نے اپنے والدین کو اس پے قربان کیا ۔

کسی نے اپنی عزت و ابرو اور زمین وجایئداد کی قربانی دی ۔ اس جدوجہد اور خونی ہجرت کی یاد اج بھی تاریخ کی کتابوں میں خون کی طرح سرخ اور تازہ ہے۔ اسے حاصل کرنا جتنا مشکل تھا ۔ اس سے زیادہ اب اس کی حفاظت کرنا اور ترقی دینا مشکل ہے۔ حفاظت کی حد تک تو اطمینان ہے کہ اللہ نے پاکستان ارمی کی شکل میں ایک عظیم فوج عنایت کی ہے۔ جو الحمداللہ ملک کے چپے چپے کا دفاع اور ہر قسم کی درندازی کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے ہر وقت تیار رہتی ہے۔

مجھے اپنے فورس پر فخر ہے اور میں ان لوگوں کو سلام پیش کرتا ہوں۔ جو ہمارے لئے اپنے زندگی کی پرمسرت لمحوں سے دور باڈر پر اور ہر اس محاذ پر لڑ رہے ہیں جس سے ہمیں اور ہمارے ملک کو خطرہ ہو۔ لیکن ترقی کے لیے ہم کو اگے انا ہوگا۔ اپنے ملک کا نام روشن کرنا ہوگا۔ ہم چاہیے جس بھی شعبے اور ملک میں ہو ۔ ایمانداری سے کام اور قانون کا احترام ہمیں ترقی سے ہمکنار کرے گا انشاءاللہ۔

۔
بات ہورہی تھی ہمارے وقت میں یوم اذادی منانے کی ۔ تو صاحب اپ سب لوگوں کو یاد ہوگا ۔ 14 اگست کی صبح، عید کی صبح کی طرح ہوتی تھی ۔ ساری رات اٹھتے بیٹھتے اور جاگتے سوتے بہت مشکل سے گزر جایا کرتی تھی ۔ کیونکہ ہم لوگ شام سے صاف کپڑے ، پالش کی ہوئے جوتے اور ڈیر سارے خریدے ہوئے بیج (سٹیکر) تیار رکھتے تھے ۔ کہ کب صبح ہو اور میں سکول پہنج جاو۔

ایک جذبہ اور محبت ہوتی تھی اپنے وطن سے ۔۔۔۔
پھر ہم پرائمری سے میڈل اور ھائی سکول پہنچے ۔ یہاں تک تو ہم بڑے جذبے سے یوم اذادی مناتے رہے۔ لیکن پھر جوانی اور کالج  کازمانہ شروع ہوا ۔ ہمیں معلوم ہوا کہ کالج میں 14 اگست کو چھٹی ہوتی ہے۔ تو دل سے رفتہ رفتہ یہ جذبہ نکلتا رہا۔ اور کالج کے بعد اب ہم بہت دانا اور عقل مند ہوچکے ہیں ۔ اکثر سیاسی مباحثے میں ہم ادھر تک چلے جاتے ہیں ۔

اور کہتے ہے کہ میں تو کہتا ہو۔ ان لوگوں سے تو انگریز اور ہندو اچھے تھے۔ یہ ہم لوگ اکثر کہتے ہیں اس ملک کے بارے میں جس نے ہمیں پہچان دیا جس نے ہمیں تعلیم دی ۔ جس نے ہمیں اپنے گود میں بڑا کیا ۔ لیکن ہم اج اتنے بڑے ہوگئے کہ اب ہم بیٹھ کے اپنے وطن اپنے جگر اور شہدا کی شہادت سے حاصل ہونے والے ملک کو دوسرے کے حوالے کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ چاہیے غصے میں ہو۔

یا گپ شپ میں ایسے الفاظ سے اجتناب کرنا چاہیے ۔ یہ ملک ہمیں بڑے قربانیوں سے ملا ہے۔ ہم نے اس کی حفاظت کرنی ہے ۔ چاہیے ہمارا ملک کرپٹ حکمرانوں کے ہاتھ میں ہو۔ یا محب وطن قیادت کے پاس ، یہ ملک ہمارا ہے ۔ یہ ملک ہماری جان ہیں ۔ ہماری پہچان اس ملک سے ہیں۔ ۔۔۔۔
ملک کی قدر مجھ جیسے پردیسیوں سے پوچھو۔ کہ اپنے ملک میں کیسی اذادی اور راحت ہے۔

دیار غیر میں زندگی کی دن لکھے  گئے تو احساس ہوا ۔ کہ ہم جو بچپن میں گاتے تھے کہ اے وطن پیارے وطن پاک وطن۔۔۔۔۔۔۔وہ واقعے ایک پاک شفاف اور اذاد وطن ہے۔ بچپن میں بیج صرف اپنے دوستوں کو دیکھانے کے لیے لگاتے تھے ۔ لیکن پردیس میں رہ کر اب سمجھے کہ جھنڈا لگا بیچ تو فخر ہے ایک اعزاز ہے ۔ دل کے اوپر لگا ہوا وہ جھنڈا اصل میں دل کے اندر ہے۔ اج اپنے جھنڈے کی عظمت اور محبت سمجھ میں ائی اب جس جگہ بھی اپنا جھنڈا دیکھے اس کو سلام کرتے ہیں ۔

پردیس میں رہنے والے میرے بھائی گواہ ہے کہ دن میں ایک لمحہ ایسا  ضرور اتا ہے ۔ کہ ہم ارمان اور خواہش کرتے ہیں کہ کاش میں اپنے ملک میں ہوتا تو ازادی اور خودمختیاری کی زندگی گزرتا۔ کسی کی دھمکیوں اور زور زبردستی سے میں نہیں ڈرتا ۔ اپنے وطن کی قدر کرو میرے ساتھیوں اور قائداعظم محمد علی جناح ، علامہ اقبال اور دوسرے جدوجہد کرنے والوں کا شکریہ ادا کرو ۔ ان کے حق میں دعا کیا کرو کہ اللہ کے فضل و کرم اور ان اعظیم ہستیوں کی وجہ سے ہمیں اپنا ازاد اور خود مختیار ملک نصیب ہوا۔  ۔۔
سیاسی اختلافات اپنے جگہ لیکن جسا بھی ہو ۔ میرا وطن دھرتی میں جنت ہے ۔ اور مجھے فخر ہے کہ میں ایک ایٹمی اور اذاد ملک سے تعلق رکھتا ہوں
پاکستان زندہ باد۔۔۔۔۔۔۔یوم آزادی مبارک

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :