تکلیف سے سبق

جمعرات 8 اکتوبر 2020

Arshad Hussain

ارشد حسین

8 اکتوبر 2005 کو شماریات کے پریڈ میں موجود تھے ۔ عظیم لیکچرار جناب صفدر صاحب اللہ ان کو خوش اور آباد رکھے ہمیں ریگریشن اور کوریلشن (regression and correlation ) پڑھا رہے تھے کہ ایک دم سے زمین نے ہلنا شروع کیا۔ سب بھاگے بھاگے کمرہ جماعت سے نکلے ۔ کالج کے سب اساتذہ کرام اور طالب علم گراؤنڈ میں جمع تھے اور زور زور سے کلمہ طیبہ اور استغفار پڑھ رہے تھے ۔

سب اللہ کے عذاب سے ڈرے ہوئے اور خیریت کے طلب گار تھے ۔ وقفے وقفے سے جھٹکے جاری تھے ۔ ہر کوئی صرف دعاوں میں مصروف اور اپنوں کے  خیریت کا طلب گار تھا۔ بہت تکلیف دہ وقت تھا۔ ممکن ہے کہ اپ سب بھائیوں کو یاد ہوگا۔ زلزلہ رک گیا۔ لیکن نہ پھر سے پریڈ جاری رہا ۔ نہ کالج ، سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے ۔ تاکہ اپنوں کی خیریت معلوم کر سکے ۔

(جاری ہے)

اس وقت ان کے ذہنوں میں اپنوں کی خیریت مقدم تھی۔ اس دن تو کچھ سمجھ نہ آیا۔ کیونکہ طالب علمی کا زمانہ تھا۔ بے پرواہ اور ریلیکس ۔۔۔طالب علمی کا زمانہ بھی عجیب ہوتا ہے۔ خاص کر کالج والی زندگی جسمیں انسان نیا نیا سکول کے بندشوں سے آزاد ہوا ہوتا ہے۔ نہ اگے کا غم، نہ پچھلے زندگی پر پچھتاوا،  بس صرف ہوائی زندگی ،خالی دماغ اور مظبوط جسم ۔

اس عمر میں وہ خود کو بڑا اور سمجھدار سمجھنا شروع کرتا ہے۔ اگے کے زندگی میں اسے صرف بڑا عہدہ ،بڑی تنخواہ اور روشن مستقبل نظر آتا ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ ان کو بعد میں کیا کیا مسائل اور تکالیف آتے ہیں۔ اس پر پھر کبھی بحث کرینگے۔ لیکن یہاں اس واقعے کا حاصل اور بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے۔ کہ اس زلزلے میں بہت سے لوگوں کے مکانات گرے۔ بہت سے لوگوں کی دکانوں کو نقصان پہنچا  ۔

بہت سے لوگ بے گھر ہوئے۔ جو الحمداللہ، اللہ کے فضل سے اب  اباد ہو چکے ہیں۔ لیکن جو اپنے بچھڑ گئے وہ کبھی بھی واپس نہیں اسکتے۔ وہ جس جگہ گئے ہیں وہاں سے واپسی ناممکن ہے۔ اج بھی جب 8 اکتوبر کا دن آتا ہے۔ تو غم ذادہ خاندانوں کو اپنے گزرے ہوئے اپنوں کی غم تازہ کرا دیتا ہے ۔ اللہ ان سب کی مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔۔

۔۔۔
    لیکن اس واقعے اور اس زلزلے میں ایک سبق پوشیدہ ہے۔ جو ہمارا رب ہم کو دیکھنا چاہتا ہے  ۔ لیکن ہم سوچتے نہیں   غور و فکر نہیں کرتے، کبھی کسی واقعے کو پرکھتے نہیں۔ اس میں ہمارے رب نے ہمارے لئے ایک عظیم الشان سبق چھپا رکھا ہے ۔ کہ دنیا میں ہر ذی روح اور خاص کر انسان کی  فکر اور مدد کرنی چاہیے  ۔ جو بھی روح پرواز کر جاتا ہے  ۔ اس کی واپسی دنیا میں ناممکن ہے۔

لیکن ہمارے معاشرے میں اجکل ایک شاعر کے بقول ۔۔۔۔
مر جائے تو بڑھ جاتی ہے انسان کی قیمت
  زندہ رہے تو جینے کی سزا دیتی ہے دنیا
جو گزر گئے، ہم کو ان کی اچھی عادات اور خیالات کا تب پتہ چلتا ہے جب وہ گزر جاتے ہیں، پھر ہم کہتے ہے فلاں میں یہ عادت بہت ہی خوب تھی، یہ کرتا تھا وہ کرتا تھا ایسا تھا ،ویسا تھا۔ لیکن جب زندہ اور ہمارے پاس ہوتا ہے تو ان کی ہر ایک بات، ہر ایک عمل اور ہر ایک کوشش ہم کو دکھاوا ، منافقت اور جھوٹ لگتا ہے۔

یہاں تک کہ کبھی کبھر ہم ان پے منافق اور گناہگار کا ٹاپہ بھی لگا دیتی ہے۔ اور اس کے ساتھ ایسے معاملات کرتے ہیں۔ کہ اس کو موت اسان اور ہمارے ساتھ جینا مشکل دیکھائے دیتا ہے۔اللہ کے لئے اج سے اپنے ساتھ وعدہ کریں کہ مخلوق خدا کو فائدہ پہنچانا ہے۔ چاہیے مالی لحظ سے ہو، جانی لحاظ سے  ہو یا کسی اور طریقے سے ، کیونکہ وہ قول مشہور ہے کہ خدمت خلق سے خدا ملتا ہے۔

اور جسے خدا ملے اسے اور کسی چیز  یا مخلوق کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔اس دنیا میں مال چلا گیا تو مشکل نہیں پھر اجائے گا، گاڑی خراب ہوئی یا گھر نہ رہا، مشکل نہیں پھر دوسرا خرید لے گے لیکن کوئی انسان کوئی ذی روح چلا گیا تو اس کا لوٹنا ناممکن ہے۔اسلئے زندگی میں ان کی خدمت کریں۔ ان کی زندگی میں اسے فائدہ دینے کی کوشش کریں اور جب زندہ ہو تو ان کی اچھی اخلاق اور عادات کا قدر کریں۔۔۔
جس کو بھی 8 اکتوبر کے زلزلے سے یا کسی دوسرے وجہ سے جانی مالی نقصان پہنچا ہے۔ اللہ اسے اپنے خزانوں سے پورا کریں ۔ ان کو صبر عظیم دے ۔ اور ہم سب کو اپنے عذاب اور ناراضگی سے بچائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :