ریاست مدینہ کا تصور

جمعرات 29 اگست 2019

Arshad Sulahri

ارشد سلہری

وزیراعظم عمران خان نے نیاپاکستان کیلئے ریاست مدینہ کا تصور دیاہے۔ جس سے عمران خان کی اپنی جماعت اور رفقاء کاربھی نابلد ہیں اور اکثر بے پر کی اڑاتے رہتے ہیں۔ دوسری جانب ناقدین اور سیاسی مخالفین ریاست مدینہ کے تصور کو ایک خاص طہارت سے دیکھتے ہیں اور خیالوں کے گھوڑے دوڑا کر چودہ سوسال والی مدینہ منورہ کی پاکیزہ ریاست کا تصور باندھ کر عمران خان کے کرتوت پر طبع آزمائی شروع کردیتے ہیں۔

مذہبی جماعتوں کے لوگ یہ سمجھتے ہوئے عمران خان پر لعن طعن کرتے ہیں کہ ریاست مدینہ کی بات کرنا تو ہمارا فرض منصبی ہے۔ 
ریاست مدینہ کے تصور کو لیکر عمران خان کے ذاتی کردار سمیت وضع قطع کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے کہ یہ منہ اور مسور کی دال،کہاں ریاست مدینہ کا تصور اور کہاں عمران خان اور یوتھیا پارٹی،بات کرتے ہوئے بندہ سوچ بھی لیتا ہے۔

(جاری ہے)

عمران خان کے مطابق شاید ریاست مدینہ کا تصور قانون سب کیلئے یعنی ون لا ء فار آل،مطلب قانون کی حکمرانی ہوگی۔ ریاست کا کردار حقیقی ماں جیسا ہوگا۔ میرٹ کی بالادستی ہوگی۔ ریاست اپنے باشندوں کی بنیادی انسانی ضروریات کی ذمہ دار ہوگی۔ حکمران طبقات بطور خادمین ریاستی کے امور سر انجام دیں گے۔ کہنے کو ریاست مدینہ کا یہ تصور بہت خوبصورت ہے مگر عملی طور پرابھی تک عمران خان اپنے اس تصور کے کوئی خدوخال واضح کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔

بزرگوں کو کہتے سنا ہے کہ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں ہیں۔ عمران خان نے سچ کر دیکھایا ہے۔ بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا۔ چیرا تو ایک قطرہ خون بھی نہ نکلا۔
 عمران خان الیکشن سے قبل بھی بہت بلند بانگ دعوے کرتے رہے ہیں۔ جس سے عوام کے اندر ایک بڑی امید نے جنم لیا۔ اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان اپنے ایک سالہ اقتدار میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکے ہیں۔

یہ کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان عوام کی امیدوں کوپورا کرنے کیلئے تاحال کوئی جامع حکمت عملی اور روڈ میپ یا فریم ورک نہیں دے سکے جس کے باعث میں عوام میں مایوسی اور بددلی دن بدن بڑھ رہی ہے۔ عوام کے اجتماعی شعور نے اظہار کرنا شروع کردیا ہے کہ عمران خان کے پاس سوائے باتوں کے اور کوئی وژن اور منصوبہ نہیں ہے۔
 عمران خان بھی سابق حکمرانوں کی طرح صرف ہاتھ پاوں مار رہے ہیں اور ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر گامزن ہیں۔

ریاست مدینہ کے تصور کو عملی جامہ پہنانا تو دور کی بات ہے مذکور اپنے اس تصور کو اجاگر کرنے میں بھی کنفیوژنظر آتے ہیں۔ عمران خان کی باتوں سے یہ نظر آتا ہے کہ خیالات اچھے ہیں۔ نیت بھی ٹھیک ہے مگر صرف باتوں کی حد تک ہے۔ موصوف ہوم ورک نہیں کرتے ہیں۔ عملی طور پر جب آگے بڑھتے ہیں تو بری طرح فلاپ ہوجاتے ہیں۔ جس کی اہم وجہ ماہرین کی مستند اور متحرک ٹیم کا فقدان ہے۔

لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست مدینہ کے تصور کو عملی شکل دینے کیلئے اعلیٰ اذہان اور ماہر ین پر مشتمل ایک قومی کونسل برائے ریاست مدینہ قائم کی جائے جوریاست مدینہ کے تصور پر اپنی سفارشات مرتب کرے اور عوام میں بھی اس تصور کی حقیقی تصویر پیش کرے تاکہ عام عوام سمجھ سکیں کہ ریاست مدینہ کا تصور بنیادی پرطور ہے کیا اور عمران خان کی ریاست مدینہ شریعیہ کی بنیاد پر ہوگی یا اصولوں کی بنیاد پر ہوگی۔

خاص کر غریب عوام کیلئے ریاست مدینہ میں کیا کشش ہو سکتی ہے اور اسلام پسند طبقات کس حد تک قبول کرتے ہیں۔ پاکستان میں اسلام پسندوں کی بھی اپنی اپنی مذہبی سوچ ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ تمام طبقات کیلئے قابل قبول خدوخال واضح کیے جائیں۔ ریاست مدینہ کے لئے تجویز کردہ کونسل میں علماء حق اور دیگر طبقات کے ماہر بھی شامل کرلیے جائیں تو شاید ایک جامع اور جدید ڈرافٹ تیار کیا جاسکے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :