حکومت کو کچھ ہوگا نہ عمران خان جار ہے ہیں

پیر 25 نومبر 2019

Arshad Sulahri

ارشد سلہری

2013 میں تحریک انصاف پر دست شفقت رکھا گیا تو عمران خان سیاسی میدان میں بھی ہیرو بن کر ابھرے ۔جس طرح کسی زمانے میں پیپلزپارٹی کی مقبولیت سے خائف ہوکر نوازشریف کو ہیروشپ دی گئی تھی۔نوازشریف جماعت اسلامی کے بھی ہیرو تھے۔عمران خان بھی کچھ عرصہ جماعت اسلامی کے ہیرو رہے ہیں۔پھر راستےجدا ہوئے۔جماعت اسلامی نے الگ سفر شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔

مشترکہ جدوجہد کرنے کی روایت ختم ہوئی اور سب خواب ،امیدیں،تبدیلی کے نعرےعمران خان کی جھولی میں ڈال دیئے گئے ۔عمران خان کی گود بھری جانے لگی ۔ملک بھر سے نگینے جمع کئے گئے اور تحریک انصاف جگ مگ جگ مگ کرنے لگی۔نئی روشنی جو گزشتہ چالیس سال سے بے سمت تھی کام آئی ،پھریوں ہوا کہ آئی آئی۔ پی ٹی آئی کے نعرے بچوں کی زبان تک پہنچے اور پورا ملک لپیٹ میں آگیا ۔

(جاری ہے)


قومی حکومت سمیت تمام تصور دقیانوسی قرار پائے اور تبدیلی محبوب ٹھہری۔رقابت تو فطری امر ہے۔ن سمیت ق لام میم جتنی بھی لیگیں بے وقت ہوتی چلی گئی ۔شیخ رشید سمیت چودھری برادران کو بھی آخری پناہ تحریک انصاف کے جھنڈے تلے ملی ۔پیپلزپارٹی سے راوبط بھی بے معنی سے ہو گئے ۔میرے لئی بس تو ہی تو،تیرے عاشق لکھ  ہزار ۔والی کیفیت میں عمران خان سے رقابت نے نفرت کی آگ بھی بڑھادی جس کوہوا عمران خان خود دیتے رہے اور خوب دیتے ہیں۔


جوتشی نما صحافی اور تجزیہ کارپرانی دوستیوں کا حق ادا کرتے ہوئےالیکشن سے قبل دعوے کیا کرتے تھے کہ عمران خان وزیراعظم نہیں بن سکتے ہیں ۔عمران خان کے ہاتھ میں اقتدار کی لکیر ہی نہیں ہے۔ملک بھر سے صرف دس بارہ ،حد بیس سیٹیں جیتیں گے۔پھر جو ہوا ۔سب نے کھلی آنکھوں سے دیکھا ۔عمران خان جیتے بھی اور وزیراعظم بھی بن گئے ۔
مولانا فضل رحمن کے آزادی مارچ اور نوازشریف کی بیرون ملک روانگی کے بعد حکومت کے دن گننے کی مشق جاری ہے۔

نومبر کے دوسرے اور آخری ہفتے میں حکومت جانے کی جو پیش گوئی تھی ۔اب پانچ دسمبر تک بڑھا دی گئی ہے۔کہا جارہا ہے کہ تحریک انصاف کو فارن فنڈنگ کیس میں کالعدم قرار دےدیا جائے گا۔جب جماعت کالعدم قرار دیدی تو حکومت بھی ختم ہوجائے گی۔
کچھ دن پہلے تو پنجاب کی وزرات اعلیٰ سمیت وزارت عظمیٰ کےلئے نام بھی سامنے لائے جا رہے تھے۔
صدارتی نظام کی بازگشت بھی ہے ۔

خبریں پارلمانی نظام لپیٹا جا رہے۔صدارتی نظام سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا بھی پسندیدہ نظام ہے ۔عمران خان کے اندر بھی صدارتی نظام کی خواہش انگرائیاں لے رہی ہے۔عین ممکن ہے کہ صدارتی نظام کےلئے عوامی ریفرنڈم کا راستہ اختیار کیا جائے۔
پاکستان پچھلے 72 سالوں سے ایسے ہی چل رہا ہے۔مقتدرہ کی گرفت مضبوط اور سیاسی جماعتیں کمزور ہوتی گئی ہیں۔

پیپلزپارٹی میں بھی دم نہیں رہا ہے۔نیا ملک شیک  بنانےکےلئے میٹریل ہی موجود نہیں ہے۔برحال محنت طلب کام ہے۔مولانا فضل رحمن کی ابھی گنجائش بنتی نظر نہیں آرہی ہے۔امریکہ اب چین کا مقابلہ کرنے کا قابل نہیں رہا ہے۔ویسے بھی امریکہ کی زیادہ توجہ مشرق وسطیٰ پر ہے۔سعودی عرب امریکہ کےلئے پاکستان ثابت ہورہا ہے۔ملکی و بین الاقوامی صورتحال کے تناظر میں پاکستان میں اقتدار ٹھیک لوگوں کے پاس ہے۔


تجزیہ کار،خبرکار اور جوتشی صحافی خاطر جمع رکھیں ۔حکومت کو کچھ نہیں ہوگا اور عمران خان بھی کہیں نہیں جارہے ہیں۔خبری کاری اور تجزیےمحض حکومتوں کو چلتا کرنے پر نہیں ہوتے ہیں۔پاکستان میں سماجی ٹوٹ پھوٹ جیسے مسائل ہیں۔مہنگائی ،بے روزگار ی سمیت امن و امان پر بھی لکھا جا سکتا ہےاور پروگرام کئے جا سکتے ہیں۔سیاست نہیں اپنی صحافت کریں۔حکومتوں کو گھر بھیجنے کا دھندہ چھوڑ دیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :