ددہوچھہ ڈیم متاثرین کے ساتھ ظلم بند ،حقوق دیکر انصاف فراہم کیا جائے

جمعہ 13 نومبر 2020

Arshad Sulahri

ارشد سلہری

ددہوچھہ ڈیم کی  باز گشت 1970 کی دہائی سے تھی ۔ ددہوچھہ ڈیم کے منصوبے پر باقاعدہ کام 2006 میں شروع کیا گیااور اس وقت کی انتظامیہ نے7977کنال تحصیل پنڈی کے مختلف موضوعات کی اراضی کوآرمی ویلفیئر ہاؤسنگ سوسائٹی  کے لئے ایکوائر کر لیا تھا ۔جس کے خلاف مالکان زمین نے ہائی کورٹ میں ایکوائیر کو چیلنج کر دیا ۔جس کا فیصلہ زمینوں کے مالکان کے حق میں آیا۔

  جس کو آرمی ویلفیئر ہاؤسنگ سوسائٹی  نے انٹرا کورٹ ڈبل بینچ میں اپیل کی وہ بھی زمینداروں کے حق میں فیصلہ ہوا کہ زمینداروں کی جدی پشتی میراث کو کسی سوسائٹی کے لیے ایکوائیر نہیں کیا جاسکتا ہے۔اس فیصلہ کو پھر آرمی ویلفیئر ہاؤسنگ سوسائٹی نےسپریم کورٹ میں چیلنج کردیا جو تا حال  التوا میں ہے۔

(جاری ہے)


 2010 میں پنجاب سمال ڈیم کے پراجیکٹ کے تحت رقبہ زمین تحصیل راولپنڈی کے قریباً سات دیہات , موضع ددہوچھہ،خانپور ،بروالہ، ددھار مرزا،منگھوٹ ددھار نجار اور مغل خاص کے موضعات کی 14371کنال 19 مرلے زمین کو ایکوائیر کر لیا گیا۔

آئین کے مطابق ایکوائر کی گئی زمین پر ایک سال کے اندر اندر منصوبہ شروع کیا جانا ضروری ہوتا ہے۔وزیراعلی کی صوابدید پر صرف 2 ماہ کی توسیع مل سکتی ہے  اور آخری توسیع صرف ایک ہفتہ تک کی دی جا سکتی ہے۔اس سے زیادہ کی آئین اور قانون میں کوئی گنجائش نہیں ہوتی ہے۔آئین اور قانون کے مطابق منصوبے کانوٹیفکیشن ختم کردیا جاناچاہیئے تھا۔ جبکہ دس سال خاموشی کے بعد 2020میں سپریم کورٹ کے آرڈر کو جواز بناتے ہوئے پہلے مارچ 2020 میں 7977کنال اور پھر ٹھیک ایک ماہ بعد اجنڈم کے تحت 14371کنال 19 مرلے زمین ددہوچھہ ڈیم کے لیے ایکوائیر کی گئی جوکے بنیادی حقوق کے خلاف ورزی کے ساتھ آرٹیکل 199 کی خلاف ورزی ہے۔


سپریم کورٹ نے جو فیصلہ ڈیم کے لیے دیا تھا اس میں واضح کہاگیا تھا کہ رقبہ 7977کنال سے زیادہ نہیں ہو گا اور یہ صرف ڈیم کے مقصد کے لیے ہی زمین استعمال ہو سکے گی۔کسی اور مقصد یا سوسائٹی کے لیے استعمال نہیں کی جائے گی بصورت دیگر زمین ایکوائیر ختم کر کے زمینداروں کے نام پر واپس کردی جائے گی۔ مندرجہ بالا حقائق سے مقامی انتظامیہ کی بدنیتی ظاہر ہوتی ہے جو آرمی ویلفیئر ہاؤسنگ سوسائٹی کو نوازنا چاہتی ہے۔


یہ ڈیم راولپنڈی کے مضافات میں تحصیل پنڈی کے سات دیہات ددہوچھہ ،خان پور ،بروالہ،ددھار مرزا، منگھوٹ،ددھار نجار، اور مغل خاص کی زمینوں پر بنایا جارہا ہے۔جو کہ ڈے ایچ اے ویلی کے اندر مرکزی موضعات ہیں۔ ڈی ایچ اے ویلی کےان موضعات کی زمینوں کا  ڈی سی ریٹ پچاس سے ساٹھ لاکھ روپے کنال ہے اور  زمینداروں کو ایکوئیرڈ زمینوں کا ایوارڈ فی کنال 65000سے ایک لاکھ کنال کیا گیا ہے۔


زمین داروں نے ہائی کورٹ میں اس بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف پٹیشن دائر کر رکھی ہے اور انصاف کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ددہوچھہ ڈیم کے منصوبہ اور ڈی ایچ اے کے ہاوسنگ پراجیکٹ سے تحصیل پنڈی کے سات موضعات براہ راست متاثر ہوتے ہیں ان میں دو دیہات موضع خان پور اور موضع بروالہ مکمل طور پر مکانات وقبرستانوں سمیت ددہوچھہ ڈیم کے اندر آتے ہیں جس کے لیے 14371کنال 19 مرلے اراضی ایکوائر کی گئی ہے۔


انظامیہ نے اگست 2020 میں متاثرین کو نوٹس ارسال کیے کہ زمین ایکوائر کیے جانے پر اعتراضات داخل کرائیں اور اس کے بعد پرائس ایوارڈ کا اعلان کیا جائےگا۔مگر انتظامیہ نے بدنیتی سے کام لیتے ہوئے اعتراضات سنے  بغیر پرائس ایوارڈ کا اعلان کر دیا او ر قابل کاشت زمینوں کو بنجر ظاہر کرتے ہوئے اپنی مرضی کے ریٹ مقرر کردیئے ۔جس پر متاثرین نے عدالت سے رجوع کیا۔

عدالت عالیہ نے متاثرین کی دائر کردہ پٹیشن پر 26 نومبر 2020 کی تاریخ دے رکھی ہے۔
ددہوچھہ ڈیم کے متاثرین کی کمیٹی کے کنوینر  اکمل ریاض کیانی کے مطابق انتظامیہ کے رویے اور سلوک سے ایسا لگتا ہے کہ ہم پاکستان کے شہری نہیں ہیں ۔ہم پر کوئی قبضہ مافیا مسلط ہے جو اونے پونے میں ہماری جائیدادوں کو چھین رہا ہے۔مارکیٹ کے مطابق فی کنال اراضی کی قیمت 60 لاکھ ہے۔

متاثرین مارکیٹ ریٹ یا کم ازکم  30 سے 40 لاکھ ڈیمانڈ کر رہے ہیں جبکہ ڈی ایچ اے  انتظامیہ نے پرائس ایوارڈ کو چیلنج کرتے ہوئے 80 لاکھ کی ڈیمانڈ کر رہی ہے۔
متاثرین کمیٹی  کے کنوینراکمل ریاض کیانی کا کہنا ہے کہہ ہم ارباب اختیار ،حکومت پنجاب ،وزیراعظم پاکستان،چیف جسٹس سپریم کورٹ،چیف آف آرمی سٹاف سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمیں مارکیٹ ریٹ یا کم ازکم 30سے 40 لاکھ روپے کنال قیمت اراضی یا متبادل زرعی آباد زمین دی جائے اور ڈیم کے اندر آنے والے موضعات تحصیل پنڈی سے بروالہ اور خانپور اس کے ساتھ تحصیل کلر سیداں سے ایک موضع فیض اللہ جن کےمکان بمعہ قبرستان زد آ رہے ہیں۔

ان کے لیے غازی بروتھا پراجیکٹ کا فارمولا  رائج کرتے ہوئے ماڈل ولیج بنا کر دیے جائیں اور ساتھ ہی قبرستان بھی ان ماڈل ولیج میں منتقل کیے جائیں یا کنسٹرکشن ریٹ موجودہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق دے جائیں ۔حقوق نہ دیئے گئے تو نہ ختم ہونے والے احتجاج کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
متاثرین کو ڈی ایچ اے اور نہ ہی ڈیم انظامیہ کی طرف  سےمعاوضہ ادا کیا گیا ہے۔

متاثرین 2006 سے عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔2020 میں مزید زمیں ایکوائر کی گئی ہے۔جس میں متاثرین کے گھر اور قیمتی جائیدادیں بھی ہیں ۔متاثرین میں شدید تشویش پائی جاتی ہے کہ ہم متاثرین جن میں اکثریت افواج پاکستان کے حاضر سروس ریٹائرڈ سپاہی سے لیکر جنرل تک شامل ہیں۔ افواج پاکستان سے اور ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان سے پیار کرنے والے افراد ہیں۔

قومی منصوبوں کےلئےاپنی زمینوں ،گھروں اور جائیدادوں کی قربانی دیتے ہیں مگر ریاستی ادارے ناروا سلوک روا رکھتے ہیں۔متاثرین کے ساتھ آئین اور قانون کے مطابق معاملات طے کرنے کی بجائے دھونس اور دھاندلی سے کام لیا جاتا ہے۔
متاثرین چاہتے ہیں کہ ددہوچھہ ڈیم کی زد میں آنے والی اراضی کے عوض زرعی زمینیں دی جائیں اور اگر زد میں گھر آتے ہیں تو گھر دیئے جائیں ۔

بصورت دیگر ماڈل ویلج بناکر متاثرین کو بسایا جائے۔ متاثرین کے مطالبات کو دیکھاجائے تو ایک مطالبہ بھی ایسا نہیں ہے کہ جو غیر حقیقی یا ناجائز ہو۔
 ددہوچھہ ڈیم انتظامیہ اور ریاستی اداروں کی جانب سے متاثرین سے آئین اور قانون سے ماورا برتاؤ کیا جارہا ہے۔ڈیم منصوبہ اور ڈی ایچ اے ویلی کےلئے ایکوائر کردہ زمینوں کے معاوضہ جات ادا نہیں  کیے جارہے ہیں۔


 گزشتہ دنوں ایف ڈبلیو او نے ددہوچھہ ڈیم کی سائٹ پر کام کے آغاز کے لیے مشینری ان موضعات میں لے آئے۔جس پر متاثرین نے احتجاج کیا کہ جب تک معاوضہ جات اور متاثرین کے مطالبات سنے نہیں جاتے کام شروع نہیں کیا جاسکتا ہے۔ہماری پٹیشن ہائی کورٹ میں لگی ہوئی ہیں جس کی تاریخ 26نومبر 2020ہے۔شدیداحتجاج کے بعد ایف ڈبلیو او کے اہلکار  اور موقع پر موجود اے سی مشینری کو ر واپس لے گئے اور معاملات کورٹ میں اور کورٹ سے باہر حل ہونے تک مشینری نہ لانے کا وعدہ کیا۔


وزیراعظم پاکستان ،چیف جسٹس آف پاکستان  متاثرین کے ساتھ روا رکھے جانے والے ظلم کا فوری نوٹس لیں  اور انصاف فراہم کریں۔متاثرین کے مطالبات پر غور کیا جائے تاکہ کسی ناخوش گوار صورتحال سے بچتے ہوئے معاملات خوش اسلوبی سے طے پا جائیں اور ڈیم کی تعمیر بلاتعطل جاری رکھی جا سکے۔یہ پر امن زمیندارجن میں اکثریت حاضر سروس وریٹارڈ جانباز فوجی اور ان کی اولادیں ہیں۔امید ہے کہ متعلقہ ریاستی اداروں اور حکومت کی جانب سے متاثرین کے مطالبات منظور کرتے ہوئے تمام حقوق  دیئے جائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :