عاصمہ ، تہمت اور خاتون اول۔۔۔۔۔۔

منگل 26 اکتوبر 2021

Asif Rasool Maitla

آصف رسول میتلا

میڈیا  آج کل خاص طور پر  عاصمہ شیرازی اور جادو  ٹونے کو لے کر بحث میں لگاہوا ہے اس کالم نے جو  (BBC)میں چھپا ہے   اور میڈیا پر گروپ بنا دیے ہیں  جو ایک دوسرے پر الزامات اور صفایئاں دے رہے ہیں ۔اگر کوئی غلطکام کرتا ہے تو اس کا پردہ  رکھو اس کی تشہیر نہ کرو ۔یہ اللہ کریم کا بھی حکم ہے اور نبی اکرم ﷺ نے بھی بہت وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے ۔

عاصمہ شیرازی  آجتک نہ خاتون اول بشری بی بی  کو ملی اور نہ آپس میں دوست  یا بچپن  کی سہیلیاں ہیں  اور نہ ہی آجکل ایک ہاسٹل میں رہتی ہیں اس لیے  کہا جا سکتا ہے کہ عاصمہ شیرازی نے جو بھی لکھا تہمت لگائی اور سرا سر الزام تراشی کی ہےکیونکہ کبھی بھی کسی انسان کے بارےمیں رائے نہ دیں اگر آپ اس کو جا نتے نہیں ہیں  مگر مسلئہ یہ نہیں ہے ۔

(جاری ہے)

کچھ لوگ اپنے دنیاوی خداؤں کی چاپلوسی کے لیے سب کچھ کر گزرتے ہیں اور اس میں بہت ہی تجربہ کار صحافی طلعت حسین اور رؤف کلاسرا  جیسے لوگ روز ویلٹ ہوٹل کیس کی خبر پر دعوہ  کر کے بے عزت ہو چکے اور ہٹ دھرمی  یہاں تک کہ قوم سے معافی  تک نہ مانگی حلانکہ ریحام خاں ہر طرح  سے لکھ کر سوشل میڈیا پر بول کر اور رو کر معافی مانگ چکی ہے۔

ایسے لوگ شاید موت کو تو بھولے ہیں اپنی آخرت بھی کسی  کی حمائیت کر کے  خراب کر رہے ہیں ۔
تہمت یا بہتان یہ ہے کہ انسان کسی کی طرف ایسے عیب کی نسبت دے جو اس کے اندر موجود نہ ہو, کسی شخص کی موجودگی یا غیر موجودگی میں جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے, تہمت یا بہتان لگانا عیب سے زیادہ تکلیف دہ عمل ہے. اس کا ارتکاب کرنے والے کے حق میں کتاب وسنت میں سخت وعید آئی ہےیہ گناہ بدکاری( زنا) سے کچھ کم نہیں بلکہ اسکے قریب کا درجہ ہے. شریعت میں بدکاری کرنے والے کی سزا سو کوڑے رکھی گئی ہے تو بدکاری کی تہمت لگانے والے کے لئے( اگروہ اس پر چار گواہ پیش نہ کر سکے)سزا اسی(80) کوڑے مقرر کی گئی ہے۔


عیب جوئی کرنے کا مفہوم یہی ہے کہ لوگوں کے عیب بیان کرنا، ان کی کسی کمی کا تذکرہ کرنا، نقص نکالنا، نکتہ چینی کرنا، بلا جواز تنقید کرنا یا زبردستی ان میں کوئی مفروضہ کمی کو بیان کرنے کی کوشش کرنا ہے۔چونکہ عیب جوئی کا منطقی نتیجہ ایذا رسانی ہے، جس کی قرآن میں ان الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ ’’بیشک جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اذیت دی پھر توبہ (بھی) نہ کی تو ان کے لئے عذاب جہنم ہے اور ان کے لئے آگ میں جلنے کا عذاب ہے‘‘ (سورۃ البروج)
اسی طرح حدیث میں بیان ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’مسلمان کو اذیت نہ دو، انہیں عار نہ دلاؤ اور ان میں عیوب مت تلاش کرو،کیونکہ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیب جوئی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی عیب گیری کرتا اور جس کی عیب گیری اللہ تعالیٰ کرنے لگے وہ ذلیل ہو جائے گا۔

اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر ہی کیوں نہ ہو۔ (جامع ترمذی)
قرآن کریم نے اس کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس کے لیے سخت عذاب کا ذکر کیا ہے" قرآنی آیات کی روشنی میں تہمت لگانے والوں پرسزا مقررہے" ایک اور جگہ قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے," بے شک جو لوگ پاکدامن, بھولی بھالی باایمان عورتوں پر تہمت لگاتے وہ دنیا و آخرت میں ملعون ہیں اور ان کے لئے بڑا بھاری عذاب ہے,اس دن جب گواہی دیں گے خود ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پاؤں, ان کی( اعمال کی) گواہی دیں گے اس دن اللہ تعالی انہیں پورا پورا بدلہ حق و انصاف کے ساتھ دے گا اور وہ جان لیں گے کہ اللہ تعالی حق ہے( اور وہی)حق کو ظاہر کرنے والا ہے"( سورہ النور
ان آیات میں بھولی بھالی عورتوں پر زنا کی سزا بیان کی گئی ہے اہل علم کا اجماع اس بات پر ہے کہ یہ سزا عورتوں پر تہمت کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ کسی پاک دامن مرد پر بھی اگر کوئی تہمت لگائے تو اس کی یہی سزا ہوگیکسی مسلمان کا برائیوں اور گناہوں میں مبتلا ہونا بلاشبہ برا ہے لیکن کسی پر گناہوں اور برائیوں کا جھوٹا الزام لگانا اس سے کہیں زیادہ برا ہے ہمارے معاشرے میں ناسور کی طرح ہمارے اخلاقیات کو معاشرت کو بے راہ روی کی طرف لے جارہی ہیں ان میں سے ایک تہمت و بہتان ہے,
قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتا ہے " وَالَّـذِيْنَ يُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْـرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِيْنًا  "  کہ" جو لوگ مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو بغیر کسی جرم کے تہمت لگا کر تکلیف پہنچاتے ہیں تو یقینا وہ لوگ بڑے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں"( سورہ احزاب: 58 )
رحمت عالم نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے پانچ چیزوں کا کوئی کفارہ نہیں,
اللہ تعالٰی کے ساتھ شریک ٹھہرانا۔

2)۔ ناحق قتل کرنا.3) میدان جنگ سے بھاگ جانا(4) مؤمن پر تہمت لگانا.5) ایسی جبری قسم جس کے ذریعے کسی کا مال ناحق لے لیا جائے۔ کسی پر بے جا تہمت اور بہتان لگانا شرعاً انتہائی سخت گناہ اور حرام ہے۔. 1۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے  وہ فرماتے ہیں : بے گناہ لوگوں پر الزام لگانا  آسمانوں سے زیادہ بوجھل ہے، یعنی بہت بڑا گناہ ہے
اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاحزاب میں بے گناہ مؤمنین اور بے گناہ مؤمنات کو زبانی ایذا دینے والوں یعنی ان پر بہتان باندھنے والوں کے عمل کو صریح گناہ قرار دیاہے۔


ایک حدیث میں ارشادِ نبوی ہے:مسلمان کے لیے یہ روا نہیں کہ وہ لعن طعن کرنے والا ہو۔ ایک اور حدیث میں ہے:  جو شخص کسی دوسرے کو فسق کا طعنہ دے یا کافر کہے اور وہ کافر نہ ہو تو اس کا فسق اور کفر کہنے والے پر لوٹتا ہے۔
الغرض مسلمان پر بہتان باندھنے یا اس پر بے بنیاد الزامات لگانے پر بڑی وعیدیں آئی ہیں، اِس لیے اِس عمل سے باز آنا چاہیے اور جس پر تہمت لگائی ہے اس سے معافی مانگنی چاہیے؛ تاکہ آخرت میں گرفت نہ ہو۔


حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور کا ایک واقعہ ہے:’’ایک مرتبہ رات کے وقت آپؓ نے ایک شخص کی آواز سنی جو اپنے گھر میں گارہا تھا۔ آپ ؓکو شک گزرا اور دیوار پر چڑھ گئے۔ دیکھا کہ وہاں شراب بھی موجود ہے اور ایک عورت بھی۔ آپؓ نے پکار کر کہا اے دشمن خدا ! کیا تو نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تو اللہ کی نافرمانی کرے گا اور اللہ تیرا پردہ فاش نہ کرے گا ؟ اس نے جواب دیا امیرالمومنین  ؓجلدی نہ کیجیے۔

اگر میں نے ایک گناہ کیا ہے تو آپ نے تین گناہ کئے ہیں۔ اللہ نے تجسس سے منع کیا تھا اور آپ نے تجسس کیا۔ اللہ نے حکم دیا تھا کہ گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ اور آپ دیوار پر چڑھ کر آئے۔ اللہ نے حکم دیا تھا کہ اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں اجازت لیے بغیر نہ جاؤ اور آپ میری اجازت کے بغیر میرے گھر میں تشریف لے آئے۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی غلطی مان گئے اور اس کے خلاف انہوں نے کوئی کارروائی نہ کی ، البتہ اس سے یہ وعدہ لے لیا کہ وہ بھلائی کی راہ اختیار کرے گا۔

‘‘تجسس کبیرہ گناہ ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس گناہ کے مضر اثرات کا احساس نہیں۔ عیب ڈھونڈنے سے نا صرف ایک فرد اپنی عاقبت خراب کرتا ہے بلکہ اس کی زندگی پر بھی منفی اثرات پڑتے ہی
جب ابوالمُنافقین عبدالّٰلہ بن اُبٔی نے حضرت عائشہ ؓ پر مکروہ سازش کے تحت تہمت لگائی تو الّٰلہ عزّو جل نے سورۂ  نور کی دس آیات نازل فرما کر حضرتِ عائشہؓ کی برأت کا اعلان کیااور قیامت تک یہ آیات تلاوت کی جاتی رہیں گی اور حضرتِ عائشہؓ کی فضیلت بیان کرتی رہیں گی۔

  لہذٰاسورۂ نور آیت 4 اور 5 میں الّٰلہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا  ’اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں، پھر چار گواہ نہ لے کر  آئیں، اُن کو  اسّی کوڑے مارو اور اُن کی شہادت کبھی قبول نہ کرو، اور وہ خود ہی فاسق ہیں‘۔ اسی طرح آیت نمبر 11 میں فرمایا گیا کہ  ’جو لوگ یہ بُہتان گھڑلائے ہیں وہ تمہارے ہی اندر کا ایک ٹولہ ہیں۔ اس واقعے کو اپنے حق  میں شر نہ سمجھو بلکہ یہ بھی تمھارے لیئے خیر ہی ہے۔

جس نے اس میں جتنا حصّہ لیااُس نے اُتنا ہی گناہ سمیٹا اور جس شخص نے اِس کی ذمّہ داری کا بڑا حصّہ اپنے سر لیا اُس کے لیئے تو عذابِ عظیم ہے۔ جس وقت تم لوگوں نے اِسے سُنا تھا اُسی وقت کیوں نہ مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں نے اپنے آپ سے نیک گمان کیا اورکیوں نہ کہہ دیا کہ یہ صریح بُہتان ہے۔اور وہ لوگ چار گواہ کیوں نہ لائے‘۔ مندرجہ بالا آیات میں نہ صرف حضرتِ عائشہؓ کی برأت ہوئی بلکہ ایسی جھوٹی اور فحاشی کی خبریں پھیلانے والوں کے لیئے اسّی کوڑوں کی سزا مقرر کی گئی اور ان کی گواہی کسی مسلمان کے حق میں قبول نہ کرنے کی تاکید کی گئی اور اُنہیں فاسق قرار دیا گیا۔

اس قسم کے واقعات میں یہ بھی تاکید کر دی گئی کہ جو کوئی ایسی خبریں پھیلانے یا جرح کرنے میں جتنا شامل ہو گاوہ اُتنا ہی گناہ گار ہو گایہاں تک کہ اِن آیات میں مسلمانوں کے لیئے ایک قائدہ کلیہ بھی مقرر کر دیا گیا کہ اسلامی معاشرے میں فواحش کو رواج دینے کے بجائے حسُنِ ظن کو فروغ دیا جائے یعنی معاشرے میں اجتماعی تعلقات کی بنیاد باہمی حُسنِ ظن پر ہو نی چاہیئے۔


الزام تراشی کا مطلب تہمت، بہتان، کسی کو قصور وار ٹھہرانا ہے۔ یہاں الزام سے مراد کسی پر جھوٹا الزام لگانا اور اسے بدنام کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ بہتان ایک کبیرہ گناہ ہے۔ خاص طور پر اگر یہ تہمت پاک دامن عورتوں پر لگائی جائے تو لائق تعزیر ہے اور ایسے شخص کو 80کوڑوں کی سزا ہے، ساتھ ہی ان کی گواہی آئندہ کے لئے ناقابل قبول ہے۔ الزام لگانے کی اس کے علاوہ بھی کئی صورتیں ممکن ہیں۔

جیسے کسی پر جھوٹ بولنے کا الزام لگانا، رشوت خوری کی تہمت دھرنا، کفر کے فتوے لگانا وغیرہ۔ الزام تراشی بھی بدگوئی کی ایک قسم ہے جس سے اجتناب لازمی ہے۔ الزام لگانے کی ایک صورت یہ ہے کہ لگایا گیا الزام درست ہو۔ اس صورت میں اگر نیت اصلاح کی ہے تو یہ بدگوئی نہیں۔ اگر نیت تحقیر و ایذا رسانی کی ہے تو یہ بدگوئی ہے۔ یوں بھی کسی کے منہ پر اس کی برائی کو بہت حکمت سے بیان کرنا چاہئے ورنہ فساد کا اندیشہ ہوتا ہے۔


اگر اسلامی تحفہ اور سلام بدظنی میں لپٹا ہوا ہو تو یہ ایک بدترین گالی ہے اور اگر ہونٹوں پر خندہ و مسکراہٹ کے ساتھ ہی دل میں بدظنی بھی ہو تو یہ توہین و اہانت اور استہزا و مذاق ہوجاتی ہے۔ ایسے ہی عطا یا داد و دہش اور مدح سرائی کی بھی ایسی ایسی تاویلیں اور تشریحات کی جا سکتی ہیں کہ جو بڑے بڑے معرکوں اور حادثات تک لے جائیں، چنانچہ اس بدظنی اور اس کے بعض نتائج کے بارے میں ارشادِ الٰہی ہے: ﴿ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِِثْمٌ وَّلاَ تَجَسَّسُوا وَلاَ یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا﴾ [الحجرات: ۱۲] ’’اے ایمان والو! بہت بدگمانیوں سے بچو ، یقین مانو کہ بعض بدگمانیاں گناہ ہیں اور دوسروں کی عیب چینی (جاسوسی) مت کرو اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔

‘‘
اس آیت کے سیاق میں ایک ایسی بات بتائی گئی ہے جو مسلمان کی عزت و آبرو کا انتہائی تحفظ کرتی ہے۔ اس آیت میں کسی کے بارے میں بدظنی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اگر بدظنی کرنے والا کہے کہ ’’میں اسے ثابت کرنے کی کوشش کروں گا‘‘تو اسے کہا جائے گا کہ ’’تم جاسوسی نہ کرو۔‘‘ اگر کوئی کہے کہ میں نے تجسس کیے بغیر ہی اسے ثابت کرلیاہے، تو اسے کہا جائے گا کہ ’’اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔

‘‘ یہ مومنوں کے لیے ایک ندا ہے کہ تمھیں یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ اپنے آپ کو دوسروں کے بارے میں شکوک و شبہات اور بدگمانیاں کرنے کی کھلی چھٹی نہ دے دو۔ اس حکم سے اللہ تعالیٰ انسان کے اندرونی ضمیر کی اس بات سے تطہیر کرتا ہے کہ وہ دوسروں کے بارے میں بدظنی میں ملوث ہوکر گناہ میں واقع ہو۔ وہ یوں کہ اسے شکوک و شبہات سے پاک و صاف کردیتا ہے اور ضمیر کو اتنا روشن کر دیتا ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کے لیے مودت و محبت کا ساگر بن جائے، جس کا کوئی بدظن انکار نہ کرپائے اور اس ضمیر کو یوں بَری و پاک بنا دیتا ہے جسے شکوک و شبہات ہرگز ملوث نہیں کر سکتے۔

ان شکوک و شبہات اوربدظنی کے اثرات سے پاک معاشرے میں زندگی کتنی حسین ہوجاتی ہے
امانت چن ایک سٹیج اداکار ہے اس نے مذاکرات ٹی وی  شو میں چیلنج کیا کہ آج تک اس نے کسی عورت کے بارے میں سٹیج پر  کبھی بھی توہین آمیز  فقرہ نہیں کہا  ۔ اور  یہ حقیقت  ہے اسی طرح وزیر اعظم عمران خاں    پر کس طرح باقائدہ   طور پر مہم بنا کر الیکشن سے پہلے  محترمہ گلالئی سے لے کر ریحام  خان تک  کیا کچھ ہیں کیا گیا مگر اس کی زبان سے عورت کے بارے ایک لفظ بھی نہیں  نکلا اور آخر کار ان سب عورتوں کا انجام کیا ہوا آپ کے سامنے ہے اور اللہ کریم نے عمران خان کو سرخرو کیا اور عزت دی ۔

اور اگر آج خاتون  اول پر عاصمہ شیرازی نے تہمت لگائی ہے تو اللہ کریم اس دنیا میں ہی دیکھائے گا کیونکہ قرآن کریم  سورہ آل عمران میں  آیت 26 میں؛   " قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِى الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۤءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۤءُۖ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۤءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۤءُ ۗ بِيَدِكَ الْخَيْرُۗ اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ ۔ترجمہ۔ کہو! خدایا! مُلک کے مالک! تو جسے چاہے، حکومت دے اور جسے چاہے، چھین لے جسے چاہے، عزت بخشے اور جس کو چاہے، ذلیل کر دے بھلائی تیرے اختیار میں ہے بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے"
اللہ کریم ہم سب کو تہمت اور کردار کشی سے بچائے اور اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :