لاک ڈاون کے مقاصد اورقومی بیانیہ

جمعرات 14 مئی 2020

Aslam Awan

اسلم اعوان

کرونا وائرس کی مبینہ وباء کو جواز بنا کے عالمی طاقتوں نے دنیا بھر میں لاک ڈاون کے ذریعے جو خطرناک کھیل کھیلا اس کے سب سے گہرے اثرات ہماری تہذیب و ثقافت،عسکری تحریکوں کی فعالیت اور اسلامی معاشرت کی مجموعی ساخت پہ پڑیں گے اور یہ پراسرار مساعی بلآخرتہذیبی کشمکش میں ڈھل کے ایک نئے عالمی سماج کی تشکیل کا سامان مہیا کرے گی۔

حیرت انگیز طور پہ عالمی مقتدرہ نے بلواسطہ دباو کے ذریعے مسلم معاشروں کو متشکل کرنے والے مذہبی گروہوں کی ذہنی استعداد اور اجتماعی طاقت کو جانچ لیا،مسلمانوں کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہواکہ دنیا کے سب سے بڑے اور زندہ مذہب اسلام کی حج و عمرہ جیسی اجتماعی عبادات خوف اور جبریت سے موقوف کر دی گئیں لیکن آزمائش کی اس گھڑی میں ہماری قوت کی علامت مذہبی تنظیمیں اورہمارے عقائد کی نمائندگی کرنے والے علماء کرام کی اجتماعی بصیرت(Collective wisdom)نے طبی عذرات قبول کر کے نہایت خاموشی کے ساتھ ریاستی دباو کو سہہ لیا۔

(جاری ہے)

بلاشبہ ماضی میں شخصی عذرات،موسمی تغیرات،قدرتی حادثات یا داخلی جنگووں کی وجہ سے جزوی طور پہ اجتماعی عبادات کے سلاسل معطل ضرور ہوئے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ریاستیں حکماً کلی طور پہ پوری دنیا میں عبادات کے اجتماعی انعقاد کو روک کے عملاً مذہبی نظام پہ قدرت پا لیں۔عہد جدید میں عالمی سطح پہ ریاستی استبداد کی یہ پہلی مشق تھی جس نے پرفریب طاقت کے ذریعے انسانی اذہان کو کنٹرول کر لیا۔

اب شاید اس جبری لاک ڈاون کو تو بتدریج ختم کر دیا جائے لیکن جن مقاصد کیلئے لاک ڈاون کا سوانگ رچایا گیا اس ایجنڈا پہ عملدرآمد کا سلسلہ نہیں رکے گا،جن میں پہلا ہدف گلف میں تیل کی تجارت پہ مغربی طاقتوں کا مکمل کنٹرول،دوسرے عسکری تحریکوں کی فعالیت اور اسلام کی اجتماعی عبادات کا وہ فطری نظام،جو ہماری تہذیبی روایات کی آبیاری میں اہم کردار ادا کرتا ہے،کو ممکنہ طور پہ تحلیل ہونا پڑے گا۔

اسلامی کلچر اور روایات کی مالی معاونت اور اسلامی افکار کو ریاستی اصابت فراہم کرنے والی سعودی،ترکی اور پاکستانی مملکتوں کی مشکلات بڑھائی جائیں گی۔ابھی حال ہی میں اصلاحات کے نام پہ سعودی معاشرے میں کچھ سماجی آزادیاں متعارف کرانے کی وجہ سے پیدا ہونے والی کشیدگی کے مہلک اثرات مذہبی تنازعات بڑھانے کا سبب بن سکتے ہیں، تیل کی تجارت عالمی سیاست کی حرکیات میں الجھ کے اقتصادی بحرانوں کی راہ ہموار بنا سکتی ہے۔

پہلے مرحلہ میں عالمی استعماری قوتیں سعودیہ کے مستعار دفاعی نظام کی بساط لپٹنے والی ہیں۔الجزیرہ ٹی وی نے وال اسٹریٹ جرنل کے حوالہ سے خبر دی ہے کہ امریکہ نے سعودی عرب سے اپنا پٹریاٹ بیٹریز سسٹم اور انتہائی حساس دفاعی تنصیبات نکالنا شروع کر دیں، (The United States is reportedly removing Patriot anti-missile systems, along with other military assets, from the kingdom of Saudi Arabia as it winds down a military build-up that began when tensions with Iran flared up last year.The Wall Street Journal,citing anonymous US officials, reported on Thursday that four batteries of Patriot surface-to-air missiles, meant to protect ground assets from missile and aircraft attacks, will be removed from Saudi oil facilities. Dozens of military personnel deployed along with the batteries will also be reassigned, officials told the WSJ.) ،اس کے علاوہ سعودیہ سے امریکن ائرفورس کے دو سکوارڈن اورگلف میں نیول فورس کی تعدادگھٹا دی گئی تاکہ سعودی سلطنت کا دفاعی ڈھانچہ کمزور ہو جائے تاہم سعودی گورنمنٹ نے امریکی فورسیز کے انخلاء پہ ابھی کوئی ردعمل نہیں دیا اورشاید اسی خاموشی میں ان کی قوت کا راز پنہاں ہو گا البتہ امریکی فوجی ترجمان نے کہا ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت اور کرونا وباء کی وجہ سے ایران چونکہ مضمحل ہو گیا، اس لئے اب فوجی قوت کا رخ براعظم ایشیا میں چین کے بڑھتے ہوئے فوجی اثر و نفوذ کو روکنے کی طرف موڑا جائے گا لیکن یہ امر بعیداز قیاس نہیں کہ کرونا وباء سکیم میں تعاون کے صلہ میں ایران عالمی تنہائی سے نکل کر عربوں کے خلاف پھر صف آراء ہو جائے، اگر ایسا ہوا تو خلیج کی مسلم مملکتوں کے درمیان ایک بار پھر ایسی غیر مختتم جنگ چھڑ جائے گا جس کے مہلک اثرات اسلامی معاشروں کی جزیات تک اتر سکتے ہیں۔

اگر ہم یوروپ کی تاریخ سے سبق لینا چاہیں تو وہاں کیتھولک اور پروٹسٹینٹ کے درمیاں دو بڑی جنگیں لڑی گئیں جن میں سے پہلی سو سال اور دوسری تیس سالوں پہ محیط تھی،ان جنگووں میں یہودیوں نے پروٹسٹنٹ کی مدد کر کے بنیاد پرست کیتھولک فرقہ کوشکست سے دوچار کر کے وہاں کی پوری مذہبی ثقافت معدوم کر ڈالی۔اگر ہم غور سے دیکھیں تو اس وباء کے دوران پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایران کے حامیوں نے خوف پھیلانے کی کرونا سکیم کی آڑ میں نافذ کئے گئے لاک ڈاون کی جس بھرپور انداز میں حمایت کی اس نے مسسلکی گروہوں کے درمیان نئی کشمکش کی بنیاد رکھ دی۔

ادھر تیل کی تجارت پہ عالمی طاقتوں کے کنٹرول کی جنگ کے دوران صرف ملٹی نشنل کمپنیاں ہی دیوالیہ نہیں ہوئیں بلکہ پوری دنیا کی معشت جزیات تک ہل کے رہ گئی تاہم اس میں سب سے زیادہ نقصان سعودی سلطنت کاہوا،ہماری مملکت کی اقتصادیات کا زیادہ انحصار چونکہ سعودی معشت پہ قائم ہے اس لئے سعودیہ اگر مالی بحران کا شکار ہوا تو اس کے تباہ کن اثرات پاکستانی معشت کو بھی لے ڈوبیں گے، ہماری مقتدرہ ریاست کو کلی معاشی انہدام سے بچانے کی خاطر مذہبی جماعتوں،دینی مدارس اورمسلمانوں کے نظم اجتماعی کو کنٹرول میں لے سکتی ہے اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ پاکستان کو اپنی سلامتی کی خاطر اس عالمی تہذیب کا جُز بننا پڑے، جس کے شکوہ کی بنیاد بھی اسلامی ثقافت کی راکھ پہ رکھی جائے گی۔

اس لئے لاک ڈاون کے بعد ابھرنے والے تغیرات سے نمنٹے کی خاطر ہمارے ارباب بست و کشاد کوزیادہ ہوشیاری کے ساتھ متبادل راہیں تلاش کرنا پڑیں گی۔پچھلے سو سالوں میں امریکی مقتدرہ نے ہر جنگ کے دوران نئے ہتھیار استعمال کر کے دنیا کو حیران کیا،دوسری جنگ عظیم کے اختتام پہ ایٹم بم استعمال کر کے پوری انسانیت کو مبہوت کر دیا،روس کے خلاف افغانوں کی گوریلہ جنگ میں اسٹنگر مزائل کے استعمال سے سوویت یونین کو زچ کیا،عراق جنگ کے دوران حیرت انگیز پٹریاٹ بیٹریز سسٹم کے ذریعے اسرائیل کا دفاع یقینی بنایا اور نئے میلینم کی شروعات میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ڈرون ٹیکنالوجی کے استعمال سے گوریلہ جنگ کی سائنس بدل ڈالی مگر عراق اور افغانستان سمیت دنیا بھر میں فتوحات حاصل کرنے کے باوجود امریکی قوت قہرہ مسلح مزاحمتوں کا مکمل خاتمہ نہ کر سکی۔

شام،عراق اور افغانستان سمیت دنیا بھر میں جنگ کی آگ سلگتی رہی۔لیکن اب کرونا وباء کی آڑ میں لاک ڈاون جیسے پراسرار ہتھیارسے امریکہ نے دنیا بھرمیں جنگی مزاحمت کو معدوم کر دیا،پتہ نہیں اس کرونا وباء کی حقیقت کب سامنے آئے گی لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا بھر کے تمام عسکری نیٹ ورک،حربی تحریکیں اور سلگتے ہوئے نظریاتی اور جغرافیائی ایشوز سرد پڑ گئے،کشمیریوں کی سیاسی تحریک، طالبان کی مسلح مزاحمت،داعش کی فسوں کاریاں اور ایران کی للکار سمیت ہر تغیر خاموش ہو گیا،ریاستوں نے مذہب کے اُس آزاد فکری نظام اور خود مختیار سماجی ڈھانچہ پہ کنٹرول حاصل کر لیا جس کی مطلق العنانی کو کوئی ریاست چلنج کرنے کی جرات نہیں کر سکتی تھی،خانہ کعبہ اور مسجد نبوی سمیت بڑی عبادت گاہیں،دینی مدارس،خانقاہیں اور ان کا الوہی نظام سب انتظامیہ کے قابو میں آ گئے،جب چاہیں جس خانقاہ،مسجد اور مدرسہ کو کھول دیں اور جب چاہیں اسے بند کر دیں،اس وبائی جواز کے سامنے سب نے سر نگوں کر لیا۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :