پولیس کی زیادتیوں کا تدارک کون کرے گا؟

جمعہ 26 جون 2020

Aslam Awan

اسلم اعوان

پولیس آرڈر 2000 کی منظوری کے ذریعے اس امید پہ پولیس کو جوابدہی کے روایتی نظام سے ماورا کرکے وسیع اختیارات دیئے گئے کہ یہاں سیاسی مداخلت سے آزاد ہو کے فرینڈلی ماحول میں اعلی سطح کی مہارت پہ مبنی ایسی مثالی پولیسنگ متعارف کرائی جائے جس میں شہریوں کے جان و مال اور آبرو کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ہماری سیاسی اشرافیہ نے اس عظیم مقصد کے حصول کی آڑ لیکر انسانی تاریخ میں پہلی بار کسی فورس کو اپنے ہی اختیارات کے تعین اور جوابدہی کا میکنزم خود تشکیل دینے کا موقعہ فراہم کیا لیکن بدقسمتی سے پولیس نے لامحدود اختیارات سمٹنے کے باوجود سروس ڈلیوری اور جوابدہی کے اپنے ہی تیار کردہ میکمنزم کو دانستہ کند بنا کے فلسفہ قانون کی روح کو اجاڑ ڈالا۔

ستم بالائے ستم یہ کہ اب ہماری مملکت میں اس المیہ پہ لب کشائی کرنے والا بھی کوئی نہیں بچا،حتی کہ صوبوں کے انتظامی سربراہوں سمیت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے وہ ممبران جنہوں نے ان قوانین کو منظور کر کے معاشرے کی کمر پہ دوہرا بوجھ ڈالہ تھا عوامی مصائب کی جانب آنکھ اٹھا کے دیکھنے کو تیار نہیں۔

(جاری ہے)

اگرچہ کسی ایکٹ کا دیباچہ نہیں ہوتا لیکن پولیس ایکٹ 2017کے مصنف سابق آئی جی ناصر درانی نے پولیس ایکٹ دوہزار سترہ کے فخریہ پرولاگ میں خود لکھا کہ ہم نے اس ایکٹ میں دیگر سرکاری اداروں کی جانب سے پیش کی گئی تمام ترامیم کو مسترد کردیا۔

مسٹر ناصر درانی نے پولیس ایکٹ کے پانچ بنیادی ستون متعین کئے،جن میں پہلا،سیاسی غیرجانبداری،جو کماحقہُ حاصل کر لی گئی،یہاں تک کہ اب پولیس نظام میں صوبہ کے وزیراعلی کا کردارمحض علامتی نگرانی تک محدود ہوگیا، کوئی وزیر،مشیر اور ممبر اسمبلی انہیں چیک نہیں کر سکتا۔دوسری، آپریشنل اٹانومی،پولیس نے اپنی داخلی کمانڈ کو ریگولیٹ کرنے کی خاطر کامل خود مختیاری پا لی،صوبائی لیول پہ آئی جی پی اورضلعی سطح پہ ڈی پی او کو ماتحت اہکاروں کی پوسٹنگ ٹرانسفرز کا حتمی اختیار مل گیا،حیرت انگیز طور پہ بائیس گریڈ میں کام کرنے والا آئی جی(جو اکثر خود بھی اکیس گریڈ کا ہوتا ہے) 21 گریڈ کے ایڈیشنل آئی جی کو وزیراعلی سے مشورہ یا پیشگی اجازت لئے بغیر جب چاہیے تبدیل کر سکتا ہے حالانکہ کسی بھی صوبہ کا چیف سیکرٹری اٹھارہ گریڈ سے اوپر کے کسی بھی افسر کی وزیراعلی سے پیشگی منظوری کے بغیر تبدیلی نہیں کر سکتا،سنہ دوہزار تک آئی جی پی، ہوم سیکریٹری کے ماتحت ہوا کرتا تھا لیکن اب وہ چیف سیکریٹری بلکہ وزیراعلی کو بھی جوابدہ نہیں،اگرچہ آج بھی پولیس کا ایڈمنسٹریٹو ڈیپارٹمنٹ،ہوم ڈیپارٹمنٹ ہی ہے لیکن آئی جی پی نے بربنائے عہدہ حکومت سے سیکریٹری(Ex officio Secretary) کے پاور لیکر غیر محدود مالیاتی خود مختاری بھی حاصل کر لی۔

ابھی حال ہی میں یہاں ڈی پی او نے دو ماہ کے اندر تھانہ سٹی میں چار اور کینٹ تھانہ میں سات ایس ایچ اوز تبدیل کر کے ریکارڈ قائم کر دیا۔تیسرا،جمہوری احتساب۔پولیس ایکٹ دوہزار سترہ کے اس تیسرے ستون،جمہوری احتساب کے تحت عوام کو پولیس اہلکاروں کی زیادتیوں سے بچانے کی خاطر پبلک سیفٹی کمشن کا قیام ناگزیر تھا لیکن پولیس کی لیڈر شپ نے دانستہ روڑے اٹکا کہ پچھلے بیس سالوں سے پبلک سیفٹی کمشن کے قیام کو ناممکن بنا دیا،پولیس ایکٹ دوہزار سترہ کی ملکیت کی دعویدار پولیس آگے بڑھکر سیفٹی کمشن کا قیام ممکن کیوں نہیں بناتی؟۔

حیران کن طور پہ کسی نے بھی پولیس ایکٹ دوہزارسترہ کے تحت پولیس کو حاصل لامحدود اختیارات کو عدالت میں چلینج نہیں کیا لیکن”بعض“لوگوں نے اُس پبلک سیفٹی کمشن کے خلاف عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل کرلئے جس میں پولیس سے جوابدہی کا نظام اور عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے ازالہ کا میکنزم شامل تھا۔اسی سے واضح ہے کہ پولیس والے عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے ازالہ کا کوئی قانونی طریقہ کار قبول کرنے کو تیار نہیں،کچھ عرصہ قبل صوبائی حکومت نے ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو پبلک سیفٹی کمشن کا سیکریٹری بنانے کی تجویز پیش کی تو پولیس بپھر گئی،کوئی بتا سکتا ہے کہ جس ایکٹ کے تحت پولیس نے لامحدود اختیار حاصل کر لئے اسی ایکٹ کے تحت پچھلے بیس سالوں میں پبلک سیفٹی کمشن کیوں نہ بن سکا؟ریاستی مقتدرہ کی طرف سے دانستہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف وردی پہ ہائی کورٹ کو ازخود نوٹس لینا چاہیے تھا۔

اس ایکٹ کا چوتھا ستون !پیشہ ورانہ مہارت کا فروغ تھا،پولیس کے نفسیاتی رویہ میں پروفشنل اپروچ اور تفتیش کے کام میں وہ خصوصی مہارت ہمیں کہیں نظر نہیں آتی جس کی اس ایکٹ میں پوری شد ومد سے چرچا کی گئی،بدقسمتی سے پولیس آج بھی پبلک منجمنٹ میں روایتی طرز عمل کا مظاہرہ اور تفتیش میں وہی فرسودہ طریقے آزما رہی ہے جو پچھلے ڈیڑھ سو سال سے پولیس سسٹم میں رائج چلے آ رہے تھے۔

اس ایکٹ کا پانچوان ستون،پولیسنگ میں عوامی شراکت تھی۔ اسی مقصد کو پانے کیلئے پولیس نے مصالحاتی کمیٹیوں کا ایسا مہمل نظام متعارف کرایا جو عملاً پولیس کے روایتی مدگاروں کی پناہ گاہ اور متوازی عدالتی نظام میں بدل گیا،جسمیں وسیع عوامی تلویث کے کوئی آثار دیکھائی دیتے ہیں نہ مصالحتی کمیٹیوں کے ممبران کو پولیس کے کام کی شفافیت اور قانونی کی عملداری کوجانچنے کی اجازت ہے کیونکہ یہ پورا نظام مشاہدہ اور تجربات کی مہارت سے عاری ایسا بے بنیاد طریقہ کار تھا جس کا سوانگ محض عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے رچایاگیا۔

ہیومین رائٹس واچ نے جنوری دوہزار بیس کی رپوٹ (Police abuse and Reform in Pakistan) میں لکھا کہ عوامی سروے اور حکومتی احتساب و تدارک کرنے والے اداروں کی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب بھی پاکستان میں پولیس کے خلاف شہریوں کو خوفزدہ کرنے کی شکایات سب سے زیادہ ہیں، پولیس ہی سب سے کم عوامی اعتماد کا حامل ایسا سرکاری ادارہ ہے جس میں جوابدہی کے واضح نظام کی کمی اور اعلی سطح پہ بدعنوانی چھائی ہوئی ہے،ضلعی سطح کی پولیس مقتدر سیاستدانوں،دولت مند زمینداروں اور معاشرے کے طاقتور افراد کے زیر اثر ہے، پولیس کے خلاف جرائم پیشہ افراد کے ماورا عدالت قتل،زیر حراست افراد سے پرتشدد طریقوں سے اعتراف جرم کرانے،ہراساں کرنے اور بھتہ خوری کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔

ہیومین رائٹس کمشن کی جنوری دوہزار چودہ اور مئی دوہزار اٹھارہ کے دوران چار سالوں بارے تیار کی گئی رپوٹ میں ملک بھر میں 2117 پولیس مقابلوں میں 6610 مرد23 خواتین اور12 بچوں کے مارے جانے کی جو تفصل ملتی ہے اسمیں صرف کراچی میں مبینہ پولیس مقابلوں میں3345 شہریوں کے ہلاک ہونے کا ذکر شامل ہے۔پچھلے بیس سالوں میں تھانہ کلچر کی قباحتیں مزید گہری ہوئیں،ملک بھر میں جرائم کی شرح بڑھ گئی اورشہریوں کے خلاف پولیس زیادتیوں کی شکایات کے ازالہ کا کوئی قانونی ضبطہ کار موجود نہیں۔

بی بی سی اردو جیسے عالمی نشریاتی ادارے نے رپوٹ کیا ہے کہ چند دن قبل سوشل میڈیا پہ پولیس کے خلاف مزاحیہ پوسٹ شیئر کرنے کی پاداش میں ڈیرہ اسماعیل خان پولیس نے رات کی تاریکی میں چھاپہ مار کے چودہ سالہ شایان لغاری کو گرفتار کرکے معصوم بچے اور اس کے والدین کو اذیتناک عمل سے گزارا،جس کا کسی اتھارٹی نے نوٹس نہیں لیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :