سیاسی تنازعہ گہرا ہو گیا؟

جمعہ 4 ستمبر 2020

Aslam Awan

اسلم اعوان

اس وقت بظاہر تو ہمارے سیاسی ماحول میں کسی قسم کی کوئی غیر معمولی کشیدگی کے آثار دیکھائی نہیں دیتے لیکن جس طرح مولانا فضل الرحمٰن تسلسل کے ساتھ محاذ آرائی کی طرف بڑھ رہے ہیں اس سے طاقتور مذہبی گروہوں اور مقتدرہ کے مابین تناوٴ میں اضافہ ہوتا جائے گا،اگر ہم غور کریں تو ہمارے معاشرے میں غیر مختتم تشدد کو بھڑکانے والے وہ تمام عوامل پائے جاتے ہیں،جنہیں کوئی بھی اندرونی یا بیرونی قوت بروکار لاکے سماج کو منقسم کر سکتی ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب مغربی سرحدات پہ بسنے والے دو نسلی گروہوں میں بے چینی کی لہریں اٹھنے کے علاوہ بااثر علماء کرام اور وہ چھوٹے دینی گروہ جو ہمیشہ مقتدرہ کی دائیں جانب رہے خود کو ریاست کے ساتھ ہم آہنگ رکھنے میں دشواری محسوس کر رہے ہوں،ان حالات میں ایک بڑی مذہبی جماعت سے سیاسی تنازعات کو بڑھانا دانشمندی نہیں ہو گی۔

(جاری ہے)

دوسرے یہ کہ عالمی حالات کے تناظر میں یہاں ایک ایسی ہمہ گیر پیراڈائم شفٹ محو خرام ہے جسے ہر گروہ کے لئے دائرہ ادراک میں لانا ممکن نہیں چنانچہ اس ٹرانزٹ پیریڈ میں پالیسی امور میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت یقینی بنانا اگرچہ دشوار عمل ہو گا لیکن منتخب قیادت کی اولین ذمہ داری یہی تھی کہ وہ ملک کو سیاسی عدم استحکام کی طرف بڑھنے سے روکنے کی خاطر قومی لیڈر شپ کا اعتماد حاصل کرتی،بلاشبہ یہ پالیسی شفٹ پیچیدہ تغیر ہے جس کا بڑا حصہ آئس برگ کی طرح کنفیوژن کی دھند میں چھپا رہے گا مگر اس کے اثرات کو ہر گروہ محسوس کر سکتا ہے۔

اس امر میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ مولانا فضل الرحمں کی حکومت مخالف سرگرمیاں بہت جلد ایسے سیاسی تصادم میں ڈھلنے والی ہیں جس کا مکمل ادراک خود مولانا کو بھی نہیں ہو گا لیکن خوش قسمتی سے ہماری قومی لیڈر شپ ان زندہ تغیرات کی حدت کو محسوس کر رہی ہے،اس لئے دونوں بڑی سیاسی جماعتیں،نواز لیگ اور پیپلزپارٹی نے مولانا فضل الرحمٰن کو برابر انگیج رکھا ہوا ہے۔

ہمارے خیال میں نوازشریف کے ٹیلیفونک رابطے اور شہبازشریف کی قیادت میں لیگی رہنماوں کی مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ اعلانیہ ملاقات کو بظاہرحکومت مخالف تحریک کے تناظر میں دیکھا جائے گا لیکن درحقیقت یہ پوری مساعی جے یو آئی کی طرف سے مرکزگریز جماعتوں کے ساتھ ملکر شروع کی جانے والی اُس حکومت مخالف تحریک کو ریگولیٹ کرنے کی حکمت عملی کا حصہ ہو گی،جس کے بارے میں اندیشہ ہے کہ وہ بلآخر کسی نامطلوب تصادم پہ منتج ہوسکتی ہے۔

متذکرہ بالا دونوں بڑی جماعتوں نے پچھلے سال دسمبر میں بھی مولانا کے پُرہنگام لانگ مارچ اور اسلام آباد دھرنا کو پُرامن اختتام تک پہنچانے کی خاطر ریاست کی مدد کی تھی اور آج پھر مولانا کی جدوجہد میں ان کی تلویث سیاسی تنازعات میں توازن لانے کی کوشش نظر آتی ہے۔تاہم ہمیں سیاسی خرابیوں اور جمہوری ہنگاموں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ سیاست بھی سمندر کی مانند ہوتی ہے سطح پہ جتنی پُرشور لہریں اٹھ رہی ہوں،سطح کے نیچے سب کچھ پرسکون رہتا ہے۔

البتہ اس وقت پاکستان کو اندرونی اور بیرونی نوعیت کے کئی سنجیدہ مسائل کا سامنا ہے جن کو سلجھانے کے لئے عقل اجتماعی کو بروکار لانے کی ضرورت ہے بلکہ اس مقصد کے حصول کیلئے سب سے زیادہ ضرورت سیاسی رواداری کی پڑے گی۔جس معاشرے میں انتہا پسندی کی جڑیں گہری اور مذہبی و سماجی تفریق روز افزوں ہو وہاں تضادات کو صرف قانونی تشدد سے ہموار کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

یہ ایک فطری امر ہے،اگر کوئی حکومت احکامات تو جاری کرے مگر شہریوں کی مدد اور رہنمائی کا فریضہ سرانجام نہ دے تو ایسی مملکت فرد کو قانون کی متابعت کی ترغیب نہیں دلا سکتی ۔ہمیں اس مشکل سے نکلنے کے لئے مقامی دہشتگردوں کے خلاف محض متحرک ردعمل کے علاوہ انسداد دہشتگردی کی ایسی جامع پالیسی مرتب کر نا پڑے گی،جسے ملک گیر سیاسی پارٹیوں،علاقائی گروپوں اور مذہبی جماعتوں کی غیر مشروط حمایت حاصل ہو،اس ضمن میں بھی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں سمیت مولانا فضل الرحمٰن اور اسکے ہمنوا علماء کرام کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

امر واقعہ بھی یہی ہے کہ برسرپیکار گروہوں کی شکایات کو قابل اعتماد قانونی طریقے سے حل نہ کر سکنے کی وجہ سے بعض گروپوں کو یہ حوصلہ ملا کہ وہ تشدد کو جائز متبادل کے طور پر تلاش کریں۔ پُرامن سیاسی اصلاحات کے ذریعے حکومت ان رجحانات پہ قابو پا سکتی تھی مگر افسوس کہ ہم نے عمیق تشدد کے ذریعے نسلی،لسانی اور مذہبی تفریق کو بڑھا کے معاشرے کو منقسم کرنے اور سرحدات پہ جنگ کے مسلسل خوف کے ذریعے آمریتوں کو مقبول بنانے میں سرکھپانا ضروری جانا۔

علی ہذالقیاس،اگرچہ دنیا یہاں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کو(جس سے معاشرتی ہم آہنگی اورملکی استحکام متاثر ہوا)ہماری قومی شناخت کے بنیادی نظریہ سے جوڑتی ہے لیکن حقیقت میں یہ ساری قباحتیں بھی عالمی طاقتوں کے تزویری مفادات کا تحت اپنائی گئی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں،جسے سلجھانے کے لئے عالمی برادری نے اب ہمیں تنہا چھوڑ دیا۔ان مشکلات کے دلدل سے نکلنے کے لئے ہمیں عوامی حمایت کے حامل ایک مربوط سیاسی نظام کی ضرورت تھی لیکن ہمارے ارباب بست و کشادکوشش بسیار کے باوجود سسٹم میں استحکام لانے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکے۔

ہرچند کہ2008 اور 2013 کے الیکشن کے ذریعے اقتدار کی پرامن منتقلی کی وجہ سے سیاسی نظام میں کچھ توازن لانے کی کوشش ہوئی لیکن 2018 کے انتخابات کو پھر تنازعات نے گھیر لیا۔سچ تو یہ ہے کہ افسر شاہی کی بدعنوانی جمہوری تجربہ کی ناکامی کی بڑی وجہ ہے،جس سے داخلی خود مختیاری کا تحفظ مشکل ہوتا گیا۔ ملک کو آج بھی بڑھتے ہوئے قرضوں کے بحران اور معاشی محاذ پر برہم کن تجارتی عدم توازن کا جو سامنا ہے،مزید برآں مسلہ کشمیر کی وجہ سے ہمسایہ ملک بھارت سے کشیدگی کا ہر سوچ پہ سایہ فگن ہونا اورافغانستان میں غیر ملکی افواج کی موجودگی کے مضمرات وقتاً فوقتاً تشدد کے ایسے رجحانات کو ابھارتے ہیں جو علاقائی سلامتی اور عالمی امن کے لئے خطرات پیدا کرتے ہیں۔

اس پراگندہ ماحول میں یہاں ذہنی ارتقاء کا سفر کیسے آگے بڑھتا؟جب ریاست معاشرے کے اندر بڑھتی ہوئی عدم رواداری کو روکنے کے لئے صحت مند سیاسی مکالمہ کو فروغ دینے سے ہچکچاتی ہو اور ذرائع ابلاغ ،آرٹس ،ٹیکنالوجی ،مکالموں اور جدید تعلیم کے ذریعے امن کے خط میں توسعی کے علاوہ ذہنی ارتقاء کے سفر کو دوام دینے کی راہیں بدستور تنگ ہو رہی ہیں،ایسے میں ایک اعتدال پسند مذہبی جماعت کے ساتھ غیرضروری سیاسی تصادم کو دعوت دینا خطرناک کھیل ہو گا۔

ابھی تو ہماری صوبائی حکومتیں شہریوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی میں بھی کامیاب نہیں ہو سکیں،سرکاری ادارے اگر قابل اعتماد قانونی ذریعے سے شہریوں کی شکایات کو دور کرتے تو تشدد کا رجحان کو فروغ نہ ملتا اور قانونی اتھارٹی ازخود جائزیت حاصل کر لیتی لیکن غیر معمولی اختیارات ملنے کے باوجود ہماری پولیس اور کمیونٹی کے درمیان تعلقات میں بہتری نہیں لائی جا سکی بلکہ عام شہری کے لئے انصاف تک رسائی کے مواقع بتدریج گھٹتے جا رہے ہیں،قانون کے موثر نفاذ کیلئے پولیس اور معاشرے کے مابین تعلق کو بہتر بنائے بغیر ریاست کی رٹ قائم نہیں ہو سکتی،آج بھی اکثر پولیس اہلکار شہریوں سے بدسلوکی کرکے فرد اور ریاست کے مابین بداعتمادی کی خلیج کو بڑھاتے ہیں۔

سینئر پولیس افسیر محمد علی بابا خیل کے مطابق یہی طرز عمل پولیسنگ کو موثر بنانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔اگرچہ صوبائی حکومت نے قانونی اصلاحات اور پولیس کی استعداد کار بڑھانے پہ اربوں روپے خرچ کر ڈالے لیکن پولیس اور کیموینٹی کے تعلقات میں بہتری کے امکانات اب بھی بعید تر ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :