
مہمان پرندے موت کے دہانے پر
پیر 10 مئی 2021

اسلم جان یوسفزئی
میں کئی برسوں اور دہائیوں سے ان واقعات کا عینی شاہد ہوں دریائے سندھ کے کنارے سے ہر سال بہت سے سرکاری محکموں کے افسران کو ان کے ماتحت شکار شدہ مرغابیوں کے تحائف ارسال کر تے ہیں ۔ یہ تحائف یہاں کے متمول لوگوں کی جانب سے بھی اپنے ذاتی تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیئے بھیجے جاتے ہیں ۔دریائے سندھ کے متصل علاقوں میں چند سال پہلے تک مرغابی پانچ سوسیہزار روپے کی ارزاں قیمت پر با آسانی مل جاتی تھی۔اب یہ نرخ ہزارسے چار ہزارروپئے ہوگیا ہے ۔ روس ، سائبیریا اور دیگرعلاقوں سے اڑ کر آنے والے پرندوں کی یہ ارزانی ماحول دوست افراد کو خون کے آنسو تو رلاتی ہے لیکن محکمہ وائلڈ لائف اور متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان چھوڑ جاتی ہے ۔تلور) (Houbara Bastard یہ اگست میں ہجرت کرکے وسطی ایشیا کے خطہ کے ممالک ازبکستان ، تاجکستان ،ترکمانستان اور سائبیریا وغیرہ سے نکلتا ہے ،سردی کے موسم میں یہ گرم پانی کی تلاش میں جنوب کی طرف بحیرہ عرب سے گزرتا ہے ۔
دوران سفر بیسیوں ممالک آتے ہیںاس کی اڑان چونکہ بہت اونچی ہوتی ہے سو یہ ابتدا میں وہاں نہیں اترتا۔بلوچستان کے راستے یہ پاکستان میں داخل ہوتا ہے ۔اوتھل ،لسبیلہ،سبی وغیرہ 15مقامات میں یہ قیام کرتا ہے ۔فروری تک یہ پرندہ پنجاب تھل (بھکر،منکیرہ، حیدرآباد ) اور سندھ میں رہتا ہے اور پھر واپس چلا جاتا ہے،دنیامیں یہ پرندہ سات روٹس پر سفر کرتا ہے۔ پاکستان میں یہ روٹ نمبر چار اپنے لیئے مختص کرتا ہے۔ بلوچستان خیبر پختونخوا کے بنجراور صحرائی علاقوں میں قیام کرنا پسند کرتا ہے۔خیبر پختونخوا میں میرن شاہ ،بنوں ،کوہاٹ اور ڈیرہ اسماعیل خان میں بسیرا کرتا ہے
(جاری ہے)
پنجاب کے شمال مغربی ضلع میانوالی، کندیاں ،بھکر اور لیہ سے موسم سرما کے چار مہینوں اکتوبر سے جنوری تک آبی پرندے بڑی تعداد میں شکار کیئے جاتے ہیں۔ روایتی شکاریوں کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے بیوروکریٹ اور سیاستدانوں نے بھی اس ممنوعہ شکار میں حصہ لینا شروع کر دیا ہے۔فطرت سے اپنی انسییت اور انوائرمنٹلسٹ ہونے کے باعث میں کئی سال سے اس موضوع پر ریسرچ میں بھی مصروف رہا ہوں۔اس دوران انسان کی بے رحمی اور شکار کے نام پر معصوم پر ندوں کے بے دریغ قتلِ عام نے بہت زیادہ دکھی کیا(میں خود بھی شکار کا شوقین رہا ہوں)۔ قدرت نے ہمارے ملک کو موسموں کی نعمتوں کے ساتھ ساتھ فطرت کی تمام ترخوبصورتیوں سے نوازا ہے۔ موسم سرما کی شدت کے ساتھ ہی روس کے برفانی علاقوں سے ہجرت کرنے والے مختلف اقسام کے خوبصورت پرندوں کی بڑی تعداد ہماری جھیلوں کا رخ کرتی ہے۔ ان میں مرغابی، نیل سر اور سائبرین کرین( سفید کونج ) شامل ہیں۔ جس بڑی تعداد میں یہ خوبصورت پرندے پاکستان کا رخ کرتے ہیں اسی بے دردی کے ساتھ یہ شکاریوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ ہجرتوں کے موسموں اور بے دریغ شکار نے فطرت کے شاہکار ان خوبصورت پرندوں میں سے سفید کونج (Siberian Crane ) کی نسل کی بقا کو شدید ترین خطرات سے دو چار کر دیا ہے۔
ماحول پر کام کرنے والے صحافی انوار حسین حقی کی ایک رپورٹ کے مطابق سائبیر یا کے دریائے اوب کے کنارے چھوٹی بڑی آبگاہوں کے پھیلے ہوئے طویل سلسلہ میں پیدا ہونے اور پروان چڑھنے والی سفید کونج موسمِ سرما کے آغاز میں اس وقت نسبتا گرم علاقوں کا رخ کرتی ہے جب سردی اور برف جمنے کی وجہ سے دریاں اور جھیلوں کی مچھلیاں پانی کی تہ میں چلی جاتی ہیں۔سفید کونج کا چہرہ چونچ سے لے کر آنکھوں سے کچھ اوپر تک سرخ رنگ کے نقاب سے ڈھکا ہوا ہوتا ہے۔جو اس سفید براق رنگ کے آبی پرندے کے حسن کو چار چاند لگا دیتا ہے۔سفید کونج کو انگریزی میں سائبیرین کرین (Siberian Crane )اور سائنسی اصطلاح میں اس کی نسل کو Leucogeranus Gurs کہتے ہیں۔اس کا قد ایک اعشاریہ چار میٹر تک بلند ہوتا ہے۔سفید کونج کے پروں کی لمبائی 2.1 سے 2.3 ،میٹر تک ہوتی ہے جبکہ وزن 4.9 سے 8.6 کلو گرام تک ہوتا ہے۔نر اور مادہ کونج تقریبا ایک جیسی ہی جسامت اور رنگ و روپ رکھتی ہیں۔تاہم نر کونج کا قد ذرا نکلتا ہوا ہوتا ہے۔سائبیریامیں اس کونج کی تین بڑی آبادیاں ہیں۔ کونجوں کی دوسری بڑی آبادی مرکزیجو کہ مغربی سائبیریا میں ہے سے ہر سال سفید کونجوں کی بڑی تعداد 3700 میل کا فاصلہ طے کرکے افغانستان اور پاکستان کے مختلف علاقوں سے پرواز کرتے ہوئے بھارت کے علاقے راجھستان میں واقع کیولا نیشنل پارک اور بھرت پور تک پہنچتی ہے۔مئی اور جولائی کا وسط سائبیرین کونج کے انڈے دینے کا موسم ہوتا ہے۔یہ صرف دو انڈے دیتی ہے جن میں سے صرف ایک بچہ نکلتا ہے۔ اس لئے اس کی افزائشِ نسل بہت ہی محدود ہے۔ماحول پر کام کرنے والے ماہرین نے مجھے بتایا کہ گذشتہ مہینے سندھ، جناح بیراج اور چشمہ بیراج کے علاقے میں سائبیرین کونج کے حوالے سے ایک تفصیلی سروے کے بعد رپورٹ تیار کی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ سائبیریا سے ہجرت، سرمائی ٹھکانوں کی ترقیاتی سرگرمیوں اور بے دریغ شکار نے سفید کونج کی نسل کی بقا کو سنگین خطرات سے دوچار کر رکھا ہے۔
اکتوبر 2013 کے اوائل میں سفید کونجوں کی خاصی تعداد کالاباغ سے لے کر چشمہ بیراج کے پانڈ ایریا اور جھیلوں، نمل جھیل اور سندھ کی منچھر جھیل میں موجود تھی۔ لیکن اس علاقے میںجاری مرغابیوں اور دیگر آبی پرندوں کے بے دریغ شکار نے سائبرین کرین کی نسل کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دو ماہ قبل اس علاقت میں سفید کونجوں کی تعداد سینکڑوں میں تھی جو اب انتہائی کم ہو چکی ہے۔ان دنوں صرف پانچ سے سات درجن کونجیں ہی ان سرمائی ٹھکانوں پر نظر آتی ہیں۔ سائبیرین کرین کی نسل کی بقا کے لئے 1970 سے کوششیں کی جارہی ہیں۔لیکن اس کے باوجود اس کی اس کی نسل میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔ یہ خوبصورت پرندہ ماحول کی عالمی انجمن آئی یو سی این کی بقا کے خطرات سے دو چار جانوروں اور طیور( پرندوں) کی سرخ فہرست2002 (Red list ) میں شامل ہے۔اور اسے شدیدخطرات سے دوچار پرندے کا درجہ دیا گیا ہے۔سائبیرین کرین کو خطرات سے دوچار جانوروں اور پودوں کی عالمی تجارت سے متعلق معاہدے CITES اور ہجرت کرنے والے پرندوں سے متعلق عالمی معاہدے جسے بون کنونشن بھی کہتے ہیں کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا تھا۔ یہ رپورٹ پاکستان آنے والے غیر ملکی پرندوں کے بے دریغ شکار کے حوالے سے چشم کشا ہے چاروں صوبوں میں وائلڈ لائف کے تحفظ کے لئے محکمے قائم ہیں۔
اربوں روپئے کے فنڈز ان محکموں پر خرچ کئے جارہے ہیں۔ لیکن یہ محکمے جنگلی حیات کے تحفظ میں بری طرح ناکام نظر آتے ہیں۔ ہمارے ملک میں قتل و غارت گری اس قد ر بڑھ گئی ہے انسان کی کوئی قیمت نہیں رہی۔ ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے برابر قرار دینے کے دین والے ملک میں انسانی جان کی قیمت اس قدر ارزاں کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ ایسے ماحول میں ہمار ی توجہ فطرت کی دیگر نعمتوں کے تشکر اور تحفط کی جانب کم ہی پڑتی ہے۔ ملک بھر میں جھیلوں کے کنارے بدیسی پرندوں کا قتلِ عام جاری ہے۔ لیکن ہم میں سے کوئی بھی اس جانب متوجہ ہیں ہو رہا ہے۔ پاکستان نے ریو کانفرنس میں حیاتیاتی تنوع کے معاہدے کو تسلیم کرنے اور اس عمل پیرا ہونے کا وعدہ بھی کیا تھا اور اس معاہدے پر دستخط بھی کئے تھے لیکن اس کے باوجود پاکستان میں ماحول اور حیاتیاتی تنوع خطرات سے دو چار ہے۔ تمام جانداربشمول انسان خالقِ کائنات کی زمین کے ماحولیاتی نظام میں ایک دوسرے میں پیوست کڑیاں ہیں لیکن اگر سفید کونج کی نسل بے درئغ شکار کی وجہ سے ختم ہو گئی تو زمین کے ماحولیاتی نظام کی اس کڑی کے نقصان کی انسان کیسے تلافی کرے گا۔سائبریا کے یخ بستہ صحرائوں سے زندگی کی بقا کی خاطر ہجرت کرنے والے ایک اورخوبصورت اور مخصوص پرندے تلور کو وطن عزیز میں بھی زندگی کا تحفظ نہیں اور نہ ہی عالمی تنظیمیں جو پرندوں کے تحفظ کیلئے دنیا بھر میں کام کر رہی ہیں ۔ اس خوبصورت پرندے کی معدوم ہوتی نسل پر اگر کوئی آوازاٹھی بھی تو وہ آوازبھکر کی ایک (ماحولیاتی سماجی تنظیم )تنظیم تحفظ ماحولیات EPO ہر سال اپنا احتجاج ریکارڈ کراتی ہے جس پر حکومت وقت نے کبھی توجہ نہ دی ۔
سندھ اور پنجاب میں اس کی بہت کم تعداد ہے جہاں غیر قانونی شکار سے تلور کی نسل معدوم ہوتی جارہی ہے۔جنوبی پنجاب کی ماحولیاتی سماجی تنظیم ''تنظیم تحفظ ماحولیات EPO''کے چیئرمین ڈاکٹر مظہر عباس نقوی اورتنظیم کے صدر اسلم جان یوسف زئی کاموقف بڑا واضح ہے کہ تلور کا شکار کرانا جہاں پاکستانی خارجہ پالیسی کا ایک اہم حصہ ہے وہاں ہر برس وفاقی حکومت ایک خاص حکم نامہ جاری کرکے شکار پر پابندی میں غیر قانونی نرمی اور تلوروں کے قتل عام کی اجازت دیتی ہے جب ایک مہمان پرندے بیچارے تلور پر خارجہ پالیسی کا اتنا بڑا بوجھ ہو تو اس کی نسل کا معدوم ہونا لمحہ فکریہ ہی ہوگا ۔
تلور بین الاقوامی طور پر ریڈ لسٹ میں شامل ہے جس کی نسل کو معدومیت کا خطرہ ہے اسے عالمی معاہدوں کے مطابق تحفظ فراہم کرنا حکومت کی زمہ داری ہے۔ جنگلی حیات کے تحفظ کے عالمی ادارے ڈبلیو ،ڈبلیو ایف کے مطابق تلور کو نایاب پرندوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جبکہ قومی قوانین کے تحت بھی اس پر پابندی ہے۔ ہر سال تلور کی خطرناک حد تک ہونے والی کمی کرہ ارض سے اس کے خاتمے کی نشاندہی کرتی ہے۔ تلور جیسے نایاب پرندے کو معدومیت سے بچانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اس کی افزائش کیلئے ایسے مراکز قائم کئے جائیں جہاں اس کے انڈوں کو سینے کا کام بطریق احسن انجام پاسکے ۔ اور اس خوبصورت پرندے کو معدوم ہونے سے بچایا جاسکے۔
ماحول پر کام کرنے والے صحافی انوار حسین حقی کی ایک رپورٹ کے مطابق سائبیر یا کے دریائے اوب کے کنارے چھوٹی بڑی آبگاہوں کے پھیلے ہوئے طویل سلسلہ میں پیدا ہونے اور پروان چڑھنے والی سفید کونج موسمِ سرما کے آغاز میں اس وقت نسبتا گرم علاقوں کا رخ کرتی ہے جب سردی اور برف جمنے کی وجہ سے دریاں اور جھیلوں کی مچھلیاں پانی کی تہ میں چلی جاتی ہیں۔سفید کونج کا چہرہ چونچ سے لے کر آنکھوں سے کچھ اوپر تک سرخ رنگ کے نقاب سے ڈھکا ہوا ہوتا ہے۔جو اس سفید براق رنگ کے آبی پرندے کے حسن کو چار چاند لگا دیتا ہے۔سفید کونج کو انگریزی میں سائبیرین کرین (Siberian Crane )اور سائنسی اصطلاح میں اس کی نسل کو Leucogeranus Gurs کہتے ہیں۔اس کا قد ایک اعشاریہ چار میٹر تک بلند ہوتا ہے۔سفید کونج کے پروں کی لمبائی 2.1 سے 2.3 ،میٹر تک ہوتی ہے جبکہ وزن 4.9 سے 8.6 کلو گرام تک ہوتا ہے۔نر اور مادہ کونج تقریبا ایک جیسی ہی جسامت اور رنگ و روپ رکھتی ہیں۔تاہم نر کونج کا قد ذرا نکلتا ہوا ہوتا ہے۔سائبیریامیں اس کونج کی تین بڑی آبادیاں ہیں۔ کونجوں کی دوسری بڑی آبادی مرکزیجو کہ مغربی سائبیریا میں ہے سے ہر سال سفید کونجوں کی بڑی تعداد 3700 میل کا فاصلہ طے کرکے افغانستان اور پاکستان کے مختلف علاقوں سے پرواز کرتے ہوئے بھارت کے علاقے راجھستان میں واقع کیولا نیشنل پارک اور بھرت پور تک پہنچتی ہے۔مئی اور جولائی کا وسط سائبیرین کونج کے انڈے دینے کا موسم ہوتا ہے۔یہ صرف دو انڈے دیتی ہے جن میں سے صرف ایک بچہ نکلتا ہے۔ اس لئے اس کی افزائشِ نسل بہت ہی محدود ہے۔ماحول پر کام کرنے والے ماہرین نے مجھے بتایا کہ گذشتہ مہینے سندھ، جناح بیراج اور چشمہ بیراج کے علاقے میں سائبیرین کونج کے حوالے سے ایک تفصیلی سروے کے بعد رپورٹ تیار کی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ سائبیریا سے ہجرت، سرمائی ٹھکانوں کی ترقیاتی سرگرمیوں اور بے دریغ شکار نے سفید کونج کی نسل کی بقا کو سنگین خطرات سے دوچار کر رکھا ہے۔
اکتوبر 2013 کے اوائل میں سفید کونجوں کی خاصی تعداد کالاباغ سے لے کر چشمہ بیراج کے پانڈ ایریا اور جھیلوں، نمل جھیل اور سندھ کی منچھر جھیل میں موجود تھی۔ لیکن اس علاقے میںجاری مرغابیوں اور دیگر آبی پرندوں کے بے دریغ شکار نے سائبرین کرین کی نسل کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دو ماہ قبل اس علاقت میں سفید کونجوں کی تعداد سینکڑوں میں تھی جو اب انتہائی کم ہو چکی ہے۔ان دنوں صرف پانچ سے سات درجن کونجیں ہی ان سرمائی ٹھکانوں پر نظر آتی ہیں۔ سائبیرین کرین کی نسل کی بقا کے لئے 1970 سے کوششیں کی جارہی ہیں۔لیکن اس کے باوجود اس کی اس کی نسل میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔ یہ خوبصورت پرندہ ماحول کی عالمی انجمن آئی یو سی این کی بقا کے خطرات سے دو چار جانوروں اور طیور( پرندوں) کی سرخ فہرست2002 (Red list ) میں شامل ہے۔اور اسے شدیدخطرات سے دوچار پرندے کا درجہ دیا گیا ہے۔سائبیرین کرین کو خطرات سے دوچار جانوروں اور پودوں کی عالمی تجارت سے متعلق معاہدے CITES اور ہجرت کرنے والے پرندوں سے متعلق عالمی معاہدے جسے بون کنونشن بھی کہتے ہیں کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا تھا۔ یہ رپورٹ پاکستان آنے والے غیر ملکی پرندوں کے بے دریغ شکار کے حوالے سے چشم کشا ہے چاروں صوبوں میں وائلڈ لائف کے تحفظ کے لئے محکمے قائم ہیں۔
اربوں روپئے کے فنڈز ان محکموں پر خرچ کئے جارہے ہیں۔ لیکن یہ محکمے جنگلی حیات کے تحفظ میں بری طرح ناکام نظر آتے ہیں۔ ہمارے ملک میں قتل و غارت گری اس قد ر بڑھ گئی ہے انسان کی کوئی قیمت نہیں رہی۔ ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے برابر قرار دینے کے دین والے ملک میں انسانی جان کی قیمت اس قدر ارزاں کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ ایسے ماحول میں ہمار ی توجہ فطرت کی دیگر نعمتوں کے تشکر اور تحفط کی جانب کم ہی پڑتی ہے۔ ملک بھر میں جھیلوں کے کنارے بدیسی پرندوں کا قتلِ عام جاری ہے۔ لیکن ہم میں سے کوئی بھی اس جانب متوجہ ہیں ہو رہا ہے۔ پاکستان نے ریو کانفرنس میں حیاتیاتی تنوع کے معاہدے کو تسلیم کرنے اور اس عمل پیرا ہونے کا وعدہ بھی کیا تھا اور اس معاہدے پر دستخط بھی کئے تھے لیکن اس کے باوجود پاکستان میں ماحول اور حیاتیاتی تنوع خطرات سے دو چار ہے۔ تمام جانداربشمول انسان خالقِ کائنات کی زمین کے ماحولیاتی نظام میں ایک دوسرے میں پیوست کڑیاں ہیں لیکن اگر سفید کونج کی نسل بے درئغ شکار کی وجہ سے ختم ہو گئی تو زمین کے ماحولیاتی نظام کی اس کڑی کے نقصان کی انسان کیسے تلافی کرے گا۔سائبریا کے یخ بستہ صحرائوں سے زندگی کی بقا کی خاطر ہجرت کرنے والے ایک اورخوبصورت اور مخصوص پرندے تلور کو وطن عزیز میں بھی زندگی کا تحفظ نہیں اور نہ ہی عالمی تنظیمیں جو پرندوں کے تحفظ کیلئے دنیا بھر میں کام کر رہی ہیں ۔ اس خوبصورت پرندے کی معدوم ہوتی نسل پر اگر کوئی آوازاٹھی بھی تو وہ آوازبھکر کی ایک (ماحولیاتی سماجی تنظیم )تنظیم تحفظ ماحولیات EPO ہر سال اپنا احتجاج ریکارڈ کراتی ہے جس پر حکومت وقت نے کبھی توجہ نہ دی ۔
سندھ اور پنجاب میں اس کی بہت کم تعداد ہے جہاں غیر قانونی شکار سے تلور کی نسل معدوم ہوتی جارہی ہے۔جنوبی پنجاب کی ماحولیاتی سماجی تنظیم ''تنظیم تحفظ ماحولیات EPO''کے چیئرمین ڈاکٹر مظہر عباس نقوی اورتنظیم کے صدر اسلم جان یوسف زئی کاموقف بڑا واضح ہے کہ تلور کا شکار کرانا جہاں پاکستانی خارجہ پالیسی کا ایک اہم حصہ ہے وہاں ہر برس وفاقی حکومت ایک خاص حکم نامہ جاری کرکے شکار پر پابندی میں غیر قانونی نرمی اور تلوروں کے قتل عام کی اجازت دیتی ہے جب ایک مہمان پرندے بیچارے تلور پر خارجہ پالیسی کا اتنا بڑا بوجھ ہو تو اس کی نسل کا معدوم ہونا لمحہ فکریہ ہی ہوگا ۔
تلور بین الاقوامی طور پر ریڈ لسٹ میں شامل ہے جس کی نسل کو معدومیت کا خطرہ ہے اسے عالمی معاہدوں کے مطابق تحفظ فراہم کرنا حکومت کی زمہ داری ہے۔ جنگلی حیات کے تحفظ کے عالمی ادارے ڈبلیو ،ڈبلیو ایف کے مطابق تلور کو نایاب پرندوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جبکہ قومی قوانین کے تحت بھی اس پر پابندی ہے۔ ہر سال تلور کی خطرناک حد تک ہونے والی کمی کرہ ارض سے اس کے خاتمے کی نشاندہی کرتی ہے۔ تلور جیسے نایاب پرندے کو معدومیت سے بچانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اس کی افزائش کیلئے ایسے مراکز قائم کئے جائیں جہاں اس کے انڈوں کو سینے کا کام بطریق احسن انجام پاسکے ۔ اور اس خوبصورت پرندے کو معدوم ہونے سے بچایا جاسکے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2025 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.