طلباء تنظیموں کی افادیت !!!

ہفتہ 7 دسمبر 2019

Ayesha Noor

عائشہ نور

وزیراعظم  پاکستان عمران خان نے ملک میں طلباء تنظیموں کی بحالی کا عندیہ دیا ہے۔  طلبہ تنظیموں کا فعال ہونا مثبت فیصلہ  ثابت ہوسکتا   ہے۔  مگرسوال یہ ہے کہ  طلباء تنظیموں کا دائرہ  کارکیا ہونا چاہئے ؟؟؟
ہماری درگاہیں تعلیم وتربیت کامسکن ہونی چاہیں ۔ اور طلباء تنظیموں کوطلباء کے حقوق کےلیے کام کرنے کا موقع ضرور ملنا چاہیے ۔

  تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ماضی میں طلباء تنظیمیں سیاسی جماعتوں کا ہراول دستہ بن کر ملکی سیاست میں کردار ادا کرتی رہی ہیں ۔ سیاسی جماعتوں نے طلباء تنظیموں کو ہائی جیک کرکے جامعات کو سیاسی اکھاڑوں میں بدل دیا ۔ اور ہماری درسگاہیں تعلیم و تربیت کی بجائے سیاست کا مرکز بن گئیں تھیں ۔ 70 اور 80 کی دہائی میں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سیاسی جماعتوں کے زیرسرپرستی طلباء تنظیموں کی  باقاعدہ سیاسی سرگرمیاں  اپنےعروج پر پہنچ گئ تھی اور کئ گھروں کے چشم و چراغ گل ہوگئے۔

(جاری ہے)

چنانچہ 1982 میں صدر ضیاء الحق نے طلباء تنظمیوں پر پابندی عائد کردی ۔ لہذٰا بحالی سے قبل ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ  طلباء تنظیموں کو منفی سیاسی  رحجانات سےدوررکھاجائے ۔  وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کہا ہے کہ "
 ‏جامعات مستقبل کی قیادت تیار کرتی ہیں اور طلبہ تنظیمیں  اس سارے عمل کا لازمی جزو ہیں ۔بدقسمتی سے پاکستان کی جامعات میں طلبہ تنظیمیں  میدان کارزار کا روپ دھار گئیں اور جامعات میں دانش کا ماحول مکمل طور پر تباہ ہوکر رہ گیا۔

‏ہم دنیا کی صف اول کی دانشگاہوں میں رائج بہترین نظام سے استفادہ کرتے ہوئے ایک جامع اور قابل عمل ضابطہ اخلاق مرتب کریں گے تاکہ ہم طلبہ تنظیمیوں  کی بحالی کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے انہیں مستقبل کی قیادت پروان چڑھانے کے عمل میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے کے قابل بنا سکیں "۔ میں وزیراعظم عمران خان کی اس بات سے اتفاق کرتی ہوں , اس پرمن وعن عمل ہوناچاہیے۔

  گزشتہ دنوں لاہور میں " لال لال لہرائے گا " کا نعرہ بلند کرکے کچھ کمیونزم / سوشلزم زدہ طلباء نے سیاسی رنگ جمانے کی بھرپور کوشش کی ۔ ان کی اس کاوش کو فی الفور پاکستان مخالف  سیاسی تنظیم " پی ٹی ایم " نے ہائی جیک کرلیا۔ چنانچہ ہمیں ضرور دیکھنا ہوگا کہ ہم کس طرح طلباء تنظیموں کو منفی سیاسی رحجانات  کے اثرات سے دور رکھ سکتے ہیں ۔
جہاں تک " لال لال لہرانے " والوں کا معاملہ  ہے تو منتظمین سے ضرور بازپرس کی جائے کہ انہیں افواج پاکستان کے خلاف نعرے بازی اور ملکی سالمیت پر وار کی ترغیب کس نےدی؟؟؟ حقوق طلباء کی آڑ میں ملکی سالمیت پر جو حملہ ہوا , اس پر گہری تشویش ہے۔


اسی لاہور شہر میں منہاج القرآن انٹرنیشنل کی قائم کردہ " مصطفوی اسٹوڈنٹس موومنٹ " نے
یکم دسمبر 2019 کو الحمراء کمپلیکس , قذافی اسٹیڈیم لاہور میں " قومی طلبہ کنونشن " کا انعقاد کیا ۔ جس میں 10 ؑہزار طلباء نے شرکت کی ۔ اس قومی طلبہ کنونشن نے یہ واضح پیغام دیا کہ طلباء تنظیموں کو کردار سازی , مستقبل کی قیادت کی تیاری اور حقوق طلباء کے تحفظ کے لیے فعال کردار  اداکرناچاہیے تاکہ طلباء تنظیموں کی سرگرمیوں کے مثبت اثرات سامنے آسکیں ۔


 طلباء مستقبل کے معمار ہیں , اور ہر طالب علم کو تعلیم کے ساتھ مثبت ذہنی , فکری , علمی , ادبی اور اخلاقی تربیت کی بھی ضرورت ہے۔ اور طلباء تنظیمیں ان مثبت اور صحت مند سرگرمیوں کے فروغ میں بہترین کردار ادا کرسکتی ہیں ۔ اگر طلبہ کو مناسب راہنمائی ملے گی تو وہ مستقبل کے مفید شہری بنیں گے ۔ حاصل کلام یہ ہے کہ طلباء تنظیمیں بذاتِ خود کوئی شجر ممنوعہ نہیں ہیں ۔

اب یہ ان کے راہنماؤں پر منحصر ہے کہ وہ طلباء کے کردار و عمل پرمثبت کردار ادا کرتے ہیں یا منفی ۔ طلباء تنظیموں کے منفی کردار کے تدارک کےلیے بین الاقوامی معیار کے مطابق قواعد و ضوابط سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ لہذٰا طلباء تنظیموں پر پابندی کوئی بہترین عمل نہیں ہے۔ ہمیں  طلبہ تنظیموں کی افادیت کو نظرانداز نہیں کرناچاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :